ٹرمپ کے نئے ٹیرف نافذ العمل، موٹی موٹی باتیں جو آپ جاننا چاہیں گے

0 minutes, 30 seconds Read

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے درجنوں ممالک سے درآمد ہونے والی اشیاء پر سخت ترین ٹیرف نافذ کر دیے ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف عالمی تجارتی نظام میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے بلکہ اسے گزشتہ ایک صدی کی سب سے بڑی اقتصادی تبدیلیوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔

ٹرمپ کے مطابق یہ اقدامات ”تجارتی انصاف“ (Reciprocal Tariffs) کے اصول پر مبنی ہیں، یعنی جو ممالک امریکا پر زیادہ ٹیرف لگاتے ہیں، اب وہ خود بھی ایسے ہی اقدامات کا سامنا کریں گے۔

تو آئیے ذرا ان محصولات (ٹیرف) کے بارے میں کچھ ضروری باتیں جان لیتے ہیں۔

نئے ٹیرف ریٹس کیا ہیں؟

 یہ چارٹ منتخب ممالک کے لیے نئے اور اپریل میں اعلان کردہ ٹیرف ریٹس (درآمدی محصولات) کا تقابلی جائزہ پیش کرتا ہے۔ نیلے رنگ کی بار اپریل 2025 میں اعلان کردہ شرحیں دکھاتی ہے۔ نارنجی رنگ کی بار وہ نئی شرحیں ہیں جو اب نافذ ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر برازیل پر ٹیرف میں نمایاں اضافہ ہوا ہے (10% سے بڑھا کر 50%)۔ ویتنام، تھائی لینڈ، اور سری لنکا جیسے ممالک کے لیے ٹیرف کی شرح میں کمی آئی ہے۔
یہ چارٹ منتخب ممالک کے لیے نئے اور اپریل میں اعلان کردہ ٹیرف ریٹس (درآمدی محصولات) کا تقابلی جائزہ پیش کرتا ہے۔ نیلے رنگ کی بار اپریل 2025 میں اعلان کردہ شرحیں دکھاتی ہے۔ نارنجی رنگ کی بار وہ نئی شرحیں ہیں جو اب نافذ ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر برازیل پر ٹیرف میں نمایاں اضافہ ہوا ہے (10% سے بڑھا کر 50%)۔ ویتنام، تھائی لینڈ، اور سری لنکا جیسے ممالک کے لیے ٹیرف کی شرح میں کمی آئی ہے۔

پہلے بیشتر ممالک کی اشیاء پر صرف 10 فیصد ٹیرف لاگو تھا، مگر اب شرح ملک کے لحاظ سے مختلف ہے۔

سب سے زیادہ ٹیرف جن ممالک پر عائد کیے گئے ہیں ان میں بھارت اور برازیل (50 فیصد)، لاؤس اور میانمار(40 فیصد)، سوئٹزرلینڈ (39 فیصد)، عراق اور سربیا (35 فیصد)، پاکستان، تھائی لینڈ، تائیوان اور ویتنام (19 فیصد) شرح کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔

بھارت پر یہ 50 فیصد ٹیرف دو مراحل میں لاگو ہو رہا ہے۔ 25 فیصد ٹیرف پہلے لاگو ہو چکا ہے، جب کہ دوسرا 25 فیصد ٹیرف 27 اگست سے نافذ ہوگا۔ بھارت کو یہ سزا روسی تیل خریدنے پر دی جا رہی ہے۔

بھارت پر ٹیرف عائد کئے ابھی چند گھنٹے ہوئے ہیں، روسی تیل کی خریداری بند نہ کی تو مزید ٹیرف لگایا جائے گا، ٹرمپ

مزید 39 ممالک، بشمول یورپی یونین پر 15 فیصد ٹیرف عائد کیے گئے ہیں۔ کینیڈا اور میکسیکو کی مصنوعات کو فی الحال کچھ شرائط کے تحت استثنا حاصل ہے، لیکن اگر وہ ”امریکا کینیڈا میکسیکو معاہدے“ (USMCA) کی شرائط پوری نہ کریں تو ان پر بھی 25 سے 35 فیصد تک ٹیرف لگایا جا سکتا ہے۔

Trading Partners New Rate Rate Announced in April
Afghanistan 15% 10%
Algeria 30% 30%
All other countries 10%
Angola 15% 32%
Bangladesh 20% 37%
Bolivia 15% 10%
Bosnia and Herzegovina 30% 35%
Botswana 15% 37%
Brazil 50% 10%
Brunei 25% 24%
Cambodia 19% 49%
Cameroon 15% 11%
Chad 15% 13%
Costa Rica 15% 10%
DR Congo 15% 11%
Ecuador 15% 10%
Equatorial Guinea 15% 13%
EU (on most goods) 15% 20%
Fiji 15% 32%
Ghana 15% 10%
Guyana 15% 38%
Iceland 15% 10%
India 25% 26%
Indonesia 19% 32%
Iraq 35% 39%
Israel 15% 17%
Ivory Coast 15% 21%
Japan 15% 24%
Jordan 15% 20%
Kazakhstan 25% 27%
Laos 40% 48%
Lesotho 15% 50%
Libya 30% 31%
Liechtenstein 15% 37%
Madagascar 15% 47%
Malawi 15% 17%
Malaysia 19% 24%
Mauritius 15% 40%
Moldova 25% 31%
Mozambique 15% 16%
Myanmar 40% 44%
Namibia 15% 21%
Nauru 15% 30%
New Zealand 15% 10%
Nicaragua 18% 18%
Nigeria 15% 14%
North Macedonia 15% 33%
Norway 15% 15%
Pakistan 19% 29%
Papua New Guinea 15% 10%
Philippines 19% 17%
Serbia 35% 37%
South Africa 30% 30%
South Korea 15% 25%
Sri Lanka 20% 44%
Switzerland 39% 31%
Syria 41% 41%
Taiwan 20% 32%
Thailand 19% 36%
Trinidad and Tobago 15% 10%
Tunisia 25% 28%
Turkey 15% 10%
Uganda 15% 10%
Vanuatu 15% 22%
Venezuela 15% 15%
Vietnam 20% 46%
Zambia 15% 17%
Zimbabwe 15% 18%
  • (نوٹ: کینیڈا اور میکسیکو کی وہ اشیاء جو یو ایس ایم سی اے (USMCA) آزاد
    تجارتی معاہدے کے تحت مستثنیٰ نہیں ہیں، اُن پر بالترتیب 35 فیصد
    (کینیڈا) اور 25 فیصد (میکسیکو) ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ زیادہ تر چینی
    مصنوعات پر 30 فیصد ٹیرف لاگو ہے، البتہ کچھ اشیاء کو استثنیٰ حاصل ہے۔
    ذرائع: وائٹ ہاؤس، امریکی انٹرنیشنل ٹریڈ کمیشن۔)

تجارتی معاہدوں کی کیا حیثیت ہے؟

ٹرمپ نے پچھلے پانچ ماہ میں آٹھ تجارتی معاہدوں کا اعلان کیا، جن میں سے صرف دو (برطانیہ اور چین کے ساتھ) باقاعدہ طور پر طے پائے ہیں۔

چین کے ساتھ معاہدہ 12 اگست کو ختم ہو رہا ہے، اور اگر فریقین نے اس کی تجدید نہ کی تو دوبارہ سخت ٹیرف لگ سکتے ہیں۔

پاکستان کے ساتھ بھی ایک اہم معاہدے کا اعلان ہوا ہے، جس میں امریکا پاکستان کے تیل، معدنیات، آئی ٹی اور کرپٹو جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستانی مصنوعات پر ٹیرف کو 29 فیصد سے کم کرکے 19 فیصد کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے مطابق یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ایک نئے اقتصادی دور کی شروعات ہے۔

تاہم، بعض معاہدے صرف ابتدائی خاکے ہیں اور انہیں حتمی شکل دینے میں مہینوں یا سال لگ سکتے ہیں۔

کن اشیاء کو استثنا حاصل ہے؟

کچھ اشیاء ان نئے ٹیرف سے مستثنیٰ ہیں، اسمارٹ فونز، جن پر کسی نئے ٹیرف کا اطلاق نہیں ہوگا، اور ادویات (Pharmaceuticals)، جن پر اگرچہ فی الحال ٹیرف نہیں، لیکن ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں ان پر بھی ٹیرف لگ سکتے ہیں۔

یورپی یونین نے 15 فیصد ٹیرف کے بدلے ادویات پر علیحدہ رعایت حاصل کی ہے۔

اس کے علاوہ، جو مصنوعات بیرونِ ملک تیار ہوتی ہیں لیکن ان کی کم از کم 20 فیصد قیمت امریکی مٹیریل یا لیبر پر مشتمل ہو، وہ بھی جزوی طور پر مستثنیٰ ہیں۔

یہ ٹیرف کب سے نافذ ہیں؟

نئے ٹیرف تکنیکی طور پر نافذ العمل ہو چکے ہیں، تاہم ایک نرمی یہ دی گئی ہے کہ جو مصنوعات 7 اگست جمعرات کی رات 12 بج کر ایک منٹ سے پہلے بحری جہازوں میں لدی اور امریکا کی طرف روانہ ہو چکی تھیں، ان پر 5 اکتوبر تک پرانے ٹیرف لاگو ہوں گے۔

پاکستان پر 19 فیصد امریکی ٹیرف کے نفاذ کا مطلب کیا ہے؟

کیا یہ سزاؤں کا اختتام ہے؟

جی نہیں! یہ صرف شروعات ہے۔

ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ سیمی کنڈکٹرز (چِپس) اور لکڑی پر 100 فیصد ٹیرف عائد کریں گے۔ اوول آفس میں ایک تقریب کے دوران انہوں نے کہا کہ یہ اقدام جلد متوقع ہے، حالانکہ اس کی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔

حالانکہ ان نئے ٹیرف کے خلاف عدالت میں مقدمہ زیرِ سماعت ہے اور ممکن ہے کہ انہیں غیر قانونی قرار دے دیا جائے، لیکن ٹرمپ کے پاس صدارتی اختیارات کی صورت میں ابھی بھی کئی راستے موجود ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی معاشی پالیسی کو جاری رکھ سکتے ہیں۔

ان اقدامات سے کیا ہوگا؟

ٹرمپ کے یہ نئے اقدامات عالمی تجارت میں طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتے ہیں۔ بھارت جیسے ممالک کو امریکا سے سخت معاشی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جب کہ پاکستان کو جزوی ریلیف ملا ہے، مگر مستقل فائدے کے لیے دونوں ممالک کو سیاسی اور معاشی سمجھوتوں کو مزید تقویت دینا ہوگی۔

عالمی معیشت میں اس ”ٹیرف وار“ کے اثرات آنے والے مہینوں میں مزید واضح ہوں گے۔

Similar Posts