امریکا نے بھارت کی برآمدات پر 50 فیصد تک بھاری ٹیرف نافذ کر دیا ہے، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان دو دہائیوں میں پہلی بار تجارتی تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد بالخصوص بھارت کی روسی تیل کی درآمدات کو نشانہ بنانا ہے، جسے واشنگٹن ”یوکرین میں روسی جنگ کے لیے مالی مدد“ قرار دے رہا ہے۔ اور یہ فیصلہ بھارت کی برآمدی معیشت کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔
نئے امریکی فیصلے سے بھارت کی امریکا کو ہونے والی 55 فیصد برآمدات متاثر ہوں گی، جن میں ٹیکسٹائل، جواہرات، چمڑے کی مصنوعات، آٹو پارٹس اور سی فوڈ کے شعبے شامل ہیں۔
کون کون سے بھارتی شعبے متاثر ہوئے؟
بھارتی میڈیا نے وزارت تجارت کے حوالے سے بتایا کہ مالی سال 2024-25 میں بھارت نے امریکا کو 86.5 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں۔ لیکن اب نئی ٹیرف پالیسی سے ٹیکسٹائل و ملبوسات، جواہرات، چمڑے، کیمیکل، مشینری اور سمندری خوراک کے شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق ٹیکسٹائل و ملبوسات کی بھارتی برآمدات کا حجم سالانہ 10.3 ارب ڈالر ہے، جس میں کاٹن تولیے، ریڈی میڈ گارمنٹس، ہوم ٹیکسٹائلز اور فیشن اپیرل شامل ہیں۔
اسی طرح، امریکا کو جواہرات اور زیورات کی برآمدات، جو بھارتی برآمدی معیشت کا ستون سمجھی جاتی ہیں، سالانہ 12 ارب ڈالر تک پہنچتی ہیں۔ چمڑے اور جوتوں کی برآمدات 1.18 ارب ڈالر اور کیمیکل مصنوعات 2.34 ارب ڈالر کی سطح پر ہیں۔
الیکٹریکل و میکینیکل مشینری کا شعبہ امریکا کو 9 ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے، جبکہ جھینگے اور دیگر سی فوڈ اشیاء کی برآمدات 2.24 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔
ماہرین کے مطابق، بھارتی برآمدی معیشت کے لیے یہ ٹیرف ایک بڑا جھٹکا ہے۔ اس کے باعث بھارتی مصنوعات ویتنام اور بنگلہ دیش کی سستی اشیاء کے مقابلے میں 30 تا 35 فیصد مہنگی ہو جائیں گی۔ اس سے نہ صرف بھارتی کمپنیوں کی مسابقت متاثر ہوگی بلکہ لاکھوں ملازمتیں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
امریکی اقدامات کے فوری اثرات
نئے ٹیرف کے اعلان کے ساتھ ہی بھارتی روپے کی قدر میں کمی آئی اور برآمدات پر انحصار کرنے والی کمپنیوں کے شیئرز گر گئے۔ رپورٹ کے مطابق، امریکی خریداروں نے بھارتی آرڈرز روک کر ویتنام و بنگلہ دیش سے متبادل تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔
ولسن سینٹر کے مائیکل کوگل مین نے اسے ”دو دہائیوں میں امریکا-بھارت تعلقات کا بدترین بحران“ قرار دیا، تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ وسیع تر تعلقات اس بحران سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
معاشی اثرات: جی ڈی پی اور ملازمتیں خطرے میں
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ان ٹیرفس کے باعث بھارت کی جی ڈی پی کی شرح نمو پر براہ راست اثر 0.2 سے 0.6 فیصد پوائنٹس تک ہو سکتا ہے، لیکن برآمدی شعبوں، خاص طور پر محنت طلب صنعتوں میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری کا خدشہ ہے۔
بھارت کی پی ایچ ڈی چیمبر آف کامرس کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر بھارت کی 8 ارب ڈالر کی برآمدات متاثر ہوں گی، لیکن جیسے جیسے مکمل ٹیرف لاگو ہوگا، اس کے اثرات پورے معاشی نظام میں محسوس ہوں گے۔
آٹو پارٹس کی صنعت، جو امریکا کو سالانہ 7 ارب ڈالر کی برآمدات کرتی ہے، وہ بھی ان اقدامات کی زد میں آ گئی ہے، جس سے نہ صرف برآمدات بلکہ سرمایہ کاری اور روزگار بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
الیکٹرانکس اور دوا سازی کی صنعتیں فی الحال ان ٹیرف سے مستثنیٰ ہیں، لیکن باقی کلیدی شعبے براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
بورس جانسن کی نام لیے بغیر بھارت پر تنقید، 50 فیصد ٹیرف کے فیصلے کی کھل کر حمایت
آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
بھارت میں سیاسی و کاروباری حلقے امریکا پر انحصار کم کر کے یورپ اور ایشیا کی منڈیوں کی طرف فوری توجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سینئر کانگریسی رہنما ششی تھرور نے اسے ”ایک زوردار جھٹکا“ قرار دیا اور متبادل منڈیوں تک رسائی کو قومی ضرورت قرار دیا۔
معروف کاروباری شخصیت آنند مہندرا نے اس بحران کو ”نئے معاشی اصلاحات کی ضرورت کی ایک کڑی“ قرار دیا اور 1991 کے معاشی بحران کی طرح اس موقع کو اصلاحات کی راہ ہموار کرنے کا موقع قرار دیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہ 50 فیصد ٹیرف نہ صرف بھارت کی برآمدی معیشت بلکہ دہلی اور واشنگٹن کے اسٹریٹیجک تعلقات کی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھ دے گا۔ آنے والے تین ہفتے نہایت اہم قرار دیے جا رہے ہیں، کیونکہ بھارت کو توانائی کے تحفظ، برآمدی آمدن اور روزگار بچانے کے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔