کبھی سوچا ہے کہ دوستی کی گہرائی صرف انسانوں تک محدود نہیں؟ کیا جنگل کے بیچوں بیچ، پہاڑوں کی آغوش میں پلنے والے گوریلا بھی دل رکھتے ہیں؟ ایسی یادیں، ایسے رشتے… جو وقت اور فاصلے کی قید سے آزاد ہوں؟
یہ کہانی ہے اُن سچی سہیلیوں کی، جو برسوں بچھڑنے کے بعد بھی ایک دوسرے کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ دوبارہ ملنے پر پہچان لیتی ہیں… نہ کوئی موبائل، نہ سوشل میڈیا، صرف دل کا رشتہ اور یاد کی حدت!
آیئے، روانڈا کے جنگلات کی خاموشی میں چھپی ایک حیران کن اور دل کو چھو لینے والی سچّی داستان پڑھتے ہیں، گوریلا دوستی کی وفا اور وقار جانتے ہیں وہ بھی سائنس اور ریسرچ کی روشنی میں۔
جی ہاں … افریقی ملک روانڈا کے جنگلات میں چھپے ہوئے ایک راز سے پردہ اٹھا ہے، ایک ایسا راز جو ہمیں بتاتا ہے کہ انسان ہی نہیں، پہاڑی گوریلا کی مادائیں بھی دوستی کو نبھانا خوب جانتی ہیں۔
پچھلے بیس سالوں سے روانڈا کے ’والکینوز نیشنل پارک‘ میں جاری ایک طویل تحقیق سے یہ حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ مادہ پہاڑی گوریلا نہ صرف ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں، بلکہ برسوں کی جدائی کے بعد بھی اپنی پرانی سہیلیوں کو تلاش کر لیتی ہیں۔

جب ایک مادہ گوریلا کسی نئے گروپ میں شامل ہوتی ہے تو وہ اس گروپ میں ان ماداؤں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے جن کے ساتھ اس نے ماضی میں وقت گزارا ہو۔ صرف پہچان ہی نہیں، بلکہ وہ ان سے دوبارہ گہری دوستی بناتی ہے، جیسے برسوں بعد بچھڑی ہوئی سہیلیاں ایک دوسرے سے لپٹ جائیں۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف زیورخ کی محققہ وِکتوئیر مارٹینیاک اور ڈاکٹر رابن موریسن کی سربراہی میں ہوئی، جس کی مانیٹرنگ ’دیان فوسی گوریلا فنڈ‘ نے کی۔
نتائج نے ماہرین کو بھی حیران کر دیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ مادہ گوریلا کسی بھی گروپ میں شامل ہونے سے پہلے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتی ہیں، نہ گروپ کا سائز، نہ نر مادہ کا تناسب، بلکہ ان کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہاں وہ نر نہ ہوں جن کے ساتھ وہ پلی بڑھی ہوں، اور وہ مادائیں ہوں جنہیں وہ پہلے سے جانتی ہوں۔
مارٹینیاک کے مطابق، ’چونکہ مادہ گوریلا کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کا باپ کون ہے، اس لیے وہ یہ سادہ اصول اپناتی ہیں کہ جس گروپ میں وہ نر ہوں جن کے ساتھ وہ بچپن میں رہی ہوں، اس سے گریز کریں، کیونکہ ان سے رشتہ داری کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‘
لیکن بات صرف پہچان تک محدود نہیں۔ مارٹینیاک مزید کہتی ہیں، ’مادہ گوریلا وقت کے ساتھ مختلف گروپس میں نر گوریلوں کو جانتی ہیں، مگر جب وہ نیا گروپ چنتی ہیں تو صرف انہی نروں سے اجتناب کرتی ہیں جن کے ساتھ وہ پلی بڑھی ہوں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف ’جان پہچان‘ نہیں بلکہ ’کس حیثیت سے جانا‘ زیادہ اہم ہے۔‘ ہے نا حیران کن انکشاف۔

ڈاکٹر موریسن اس پہلو پر روشنی ڈالتی ہیں کہ کسی نئے گروپ میں داخل ہونا ایک دباؤ بھرا تجربہ ہوتا ہے، جہاں نئے آنے والوں کو اکثر نچلے درجے پر رکھا جاتا ہے۔ ایسے میں پرانی سہیلی کی موجودگی نہ صرف جذباتی سہارا دیتی ہے بلکہ گروپ میں جگہ بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ وہ سہیلیاں جن کے ساتھ پانچ سال یا اس سے زیادہ وقت گزارا گیا ہو، اور جنہیں دو سال کے اندر اندر دوبارہ دیکھا گیا ہو، وہ سب سے زیادہ اہم ثابت ہوئیں۔
موریسن کے مطابق، ’ان رشتوں میں سرمایہ کاری کا مطلب ہے کہ جدائی وقتی ہو سکتی ہے، لیکن دوبارہ ملنے پر یہ رشتے آسانی سے بحال ہو جاتے ہیں، اور نئے گروپ میں جگہ بنانا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔‘
یہ تحقیق ایک بار پھر ہمیں بتاتی ہے کہ رشتوں، دوستیوں، اور جذبات کا تعلق صرف انسانوں تک محدود نہیں۔ جنگل کی خاموش گہرائیوں میں بھی ایسی کہانیاں پنپتی ہیں جو دوستی، پہچان اور وفا کی مثال بن جاتی ہیں۔