ایسی صورت میں صحت یابی اور بحالی کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔اس دوران آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ فعال نہیں رہ سکتے۔ سفر نہیں کر پاتے، ورزش نہیں کر سکتے اور دل کی صحت بھی کمزور ہوتی ہے۔ میٹابولک مسائل سمیت دیگر بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔غرض ہڈیوں کی بیماری کا خطرناک سلسلہ مستقبل میں بڑی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق ایک انسان کی عمر جب بیس کی دہائی کے وسط میں ہو تو ہڈیوں کی کثافت اپنی انتہا پر ہوتی ہے۔اس کے بعد یہ آہستہ آہستہ کم ہوتی ہے۔ اس سے آسٹیوپینیا عمل پیدا ہو سکتا ہے یعنی ہڈیوں کی کثافت میں ایسی کمی جو مکمل طور پر آسٹیوپوروسس پیدا نہ کرے مگر فریکچر کے زیادہ خطرے سے جڑی ہو۔ ایک بار جب آسٹیوپوروسس ہو جائے تو ہڈیاں معمولی حادثات سے بھی ٹوٹنے لگتی ہیں۔لیکن یہ ایک خاموش بیماری ہے، اکثر لوگ اسی وقت جان پاتے ہیں جب ان کی ہڈیاں ٹوٹنا شروع ہو جائیں۔اسی پس منظر میں ہڈیوں کی صحت محفوظ رکھنے کے لیے آرتھوپیڈک ماہرین کے مشورے درج ذیل ہیں۔
حرکت میں رہیں
لوگ ہڈیوں کو جسم کا جامد حصہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ دراصل متحرک ہیں۔ پرانی ہڈیاں مسلسل ٹوٹتی اور خون میں جذب ہوتی ہیں اور نئی ہڈیاں بنتی رہتی ہیں۔ اس عمل کو “ری ماڈلنگ” کہا جاتا ہے جس پر کئی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ان میں وزن اٹھانے والی ورزش سے پیدا ہونے والا میکانیکی دباؤ بھی شامل ہے۔مثال کے طور پر چلنا، سیڑھیاں چڑھنا، کھیل کھیلنا ، پْش اَپس کرنا اور رسی کودنا۔
ڈاکٹر جیک اسٹیل امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ سینٹ جوزف میڈیکل سینٹر میں آرتھوپیڈک سرجن ہیں۔کہتے ہیں’’جہاں ہڈی پر دباؤ پڑے وہاں ہڈیوں کی کثافت بڑھتی ہے۔ اور جہاں ہڈیوں پر دباؤ نہیں ڈالا جاتا، وہاں جسم اْس ہڈی کو تحلیل کرنے لگتا ہے اور یوں ہڈیوں کی کثافت کم ہو جاتی ہے جو آسٹیوپینیا یا آسٹیوپوروسس کا سبب بن سکتی ہے۔
اگرچہ یہ بیماریاں واپس نہیں پلٹ سکتیں لیکن مختلف ادویات کے ذریعے قابلِ علاج ہیں اور ان کی بڑھوتری کو سست کیا جا سکتا ہے تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔مریض اکثر ڈاکٹر اسٹیل سے پوچھتے ہیں کہ انہیں کتنی ورزش کرنی چاہیے؛ کچھ لوگ روزانہ 30 منٹ چلنا پسند کرتے ہیں، جبکہ دوسرے لوگ ہفتے کے آخر میں دو گھنٹے ٹینس کھیل لیتے ہیں۔ دونوں طریقے مؤثر ہیں۔ وہ مریضوں کو بتاتے ہیں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ باقاعدگی اختیار کریں اور جتنا ممکن ہو سکے حرکت میں رہیں، بجائے اس کے کہ کئی دن بغیر کسی جسمانی سرگرمی کے گزر جائیں۔
سن یاس کا دور
تحقیقات بتاتی ہے کہ سن یاس ہڈیوں کی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اس سے ہڈیوں کی کثافت کم ہو سکتی ہے جس سے آسٹیوپوروسس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسٹروجن میں کمی کے باعث بھی پٹھوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس نقصان کا مقابلہ کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے: وزن اٹھانا۔ڈاکٹر پامیلہ مہتا امریکی شہر سان ہوزے، کیلیفورنیا میں ریزیلینس آرتھوپیڈکس کمپنی کی بانی اور آرتھوپیڈک سرجن ہیں۔ کہتی ہیں:
‘‘یہ خواتین کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی روزمرہ کی ورزش میں طاقت بڑھانے والی ورزش شامل کریں، کیونکہ سن یاس اور اس کے قریب کے برسوں میں پٹھوں اور ہڈیوں کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔وزن اٹھانے کی ورزشیں کرنے کے سلسلے میں یوٹیوب پر دستیاب مستند ڈاکٹروں کی ویڈیوز سے مدد لیجیے۔‘‘
دو بنیادی غذائی اجزا
کئی معدنیات اور غذائی اجزاہڈیاں مضبوط بنانے میں کردار ادا کرتے ہیںلیکن دو پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے:اول کیلشیم جو صرف غذا یا سپلیمنٹس سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ اسے مناسب مقدار میں نہ لیں تو جسم اسے ہڈیوں سے لینے لگتا ہے جس سے ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں۔دوم وٹامن ڈی جو جسم کو کیلشیم جذب کرنے میں مدد دیتا اور آسٹیوپوروسس سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ڈاکٹر شاؤ کے مطابق:’’ان دونوں کی اچھی مقدار لینا بہت ضروری ہے۔‘‘
عمر کے حساب سے زیادہ تر بالغوں کو روزانہ 1000 سے 1200 ملی گرام کیلشیم اور 15 سے 20 مائیکروگرام وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔کیلشیم حاصل کرنے کے لیے وہ مشورہ دیتے ہیں کہ دودھ، پنیر، دہی، گہرے سبز پتوں والی سبزیاں جیسے کیل اور سویا مصنوعات ( ٹوفو) استعمال کریں۔وٹامن ڈی کچھ مقدار میں ٹونا، سارڈین، سالمن، پنیراور انڈے کی زردی میں ملتا ہے۔
روزانہ دھوپ لیجے
دھوپ سینکنا ہڈیوں کی صحت کے لیے بہترین ہے۔ ڈاکٹر اسٹیل کہتے ہیں:’’جب سورج کی روشنی آپ کی جلد پر پڑے تو جسم وٹامن ڈی پیدا کرتا ہے۔ آپ اپنی خوراک سے بھی کچھ وٹامن ڈی لے سکتے ہیں، لیکن اس کی زیادہ مقدار سورج کی روشنی سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘یقیناً سورج کے مضر اثرات بھی ہیں، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔ کوشش کریں کہ اس وقت باہر جائیں جب یو وی انڈیکس 8 سے کم ہو، یعنی صبح سویرے یا شام کے وقت اور ہمیشہ سن اسکرین لگائیں۔وہ مزید کہتے ہیں:’’گھنٹوں باہر رہنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں تک کہ 30 منٹ باہر چلنے اور دھوپ میں رہنے سے بھی وٹامن ڈی پیدا ہوجاتا ہے۔ ساتھ ساتھ دھوپ میں چہل قدمی وزن اٹھانے والی ورزش بھی ہے یعنی ہڈیوں کے لیے دوہرا فائدہ۔‘‘
کیلشیم اور وٹامن ڈی سپلیمنٹس
اگر آپ کیلشیم یا وٹامن ڈی کافی مقدار میں نہیں لے رہے تو سپلیمنٹس فائدے مند ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹر کرسٹین جابلونسکی امریکی ادارے، اورلینڈو ہیلتھ میں ہڈیوں کی صحت اور آسٹیوپوروسس پروگرام کی سربراہ ہیں۔ مشورہ دیتی ہیں کہ ایک ’’فوڈ ڈائری‘‘ رکھیں۔ کہتی ہیں:’’آپ اسے دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عام دن میں کیا کھاتا/کھاتی ہوں؟اگر آپ روزانہ کم از کم 1000 ملی گرام کیلشیم لے رہے ہیں تو آپ کی حالت اچھی ہے۔ اگر آپ مسلسل اس سے کم مقدار لے رہے تو اپنی خوراک میں تبدیلیاں کیجیے یا اپنے ڈاکٹر سے سپلیمنٹس کے بارے میں بات کریں۔‘‘
ڈاکٹر جابلونسکی مانتی ہیں کہ وٹامن ڈی کا حساب رکھنا نسبتاً مشکل ہے، خاص طور پر اس لیے کہ اس کا زیادہ حصہ سورج کی روشنی سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں:’’بہت سے لوگ اس کی کمی کا شکار ہوتے ہیں مگر انہیں علم نہیں ہوتا۔‘‘اگر آپ کو پہلے ہی آسٹیوپوروسس ہے تو ڈاکٹر کو باقاعدگی سے بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے آپ کے جسم میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کی سطح چیک کرنی چاہیے۔ اگر آپ کا حالیہ ٹیسٹ نہیں ہوا، تو اگلے معائنے پر لازماً اس کا ذکر کریں، خاص طور پر اگر آپ ہڈیوں میں درد، تھکن یا مزاج میں تبدیلی جیسی علامات محسوس کرنے لگیں۔
ادویات چیک کریں
کچھ دوائیں ہڈیوں کی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
٭ پروٹون پمپ انہیبیٹرز (جو ہارٹ برن کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں)
٭ سیلیکٹیو سیروٹونن ریسیپٹر انہیبیٹرز (اینٹی ڈپریشن ادویات)
٭ اینٹی کنولسنٹس (دورے قابو کرنے کی دوائیں)
٭ گلوکوکورٹیکوئڈز (اسٹرائیڈ ہارمون)
٭ خون پتلا کرنے والی دوا ہیپرین
ڈاکٹر جابلونسکی کہتی ہیں:’’اگر یہ دوائیں ضروری ہیں تو آپ کو لینی پڑیں گی۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنے ڈاکٹر سے کسی متبادل دوا پر بات کریں، یا انہیں کم عرصے کے لیے استعمال کریں۔ وہ مشورہ دیتی ہیں:’’ہمیشہ سوال پوچھیں اور معتبر ذرائع سے اپنی تحقیق کریں۔‘‘
الکحل، کیفین اور سگریٹ نوشی
کیفین یا الکحل لینے کی عادت ہڈیوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر اسٹیل کہتے ہیں’’یہ چیزیں بنیادی طور پر جسم کی شفا پانے کی صلاحیت کو محدود کر دیتی ہیں۔ ہڈی ہمیشہ ٹوٹتی اور بنتی رہتی ہے۔ زیادہ کیفین یا الکحل کا استعمال یہ عمل متاثر کرتا اور وقت کے ساتھ ہڈیوں کی کثافت میں کمی لاتا ہے۔‘‘
سگریٹ نوشی کے بھی یہی اثرات ہیں: تحقیق کے مطابق وہ بزرگ افراد جو سگریٹ پیتے ہیں، ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کے امکانات 30 سے 40 فیصد زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت ان لوگوں کے جو نہیں پیتے۔سگریٹ نوشی نہ صرف آسٹیوپوروسس کا خطرہ بڑھاتی بلکہ ہڈی بنانے والے خلیات کی پیداوار بھی سست کرتی ہے۔ کیلشیم کے جذب ہونے کی مقدار کم کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر مہتا کا کہنا ہے کہ بعض سرجن تو سگریٹ نوش مریضوں کا آپریشن کرنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں، کیونکہ سگریٹ نوشی سرجری کے بعد ہڈی جْڑنے کا عمل متاثر کرتی ہے اور ان مریضوں میں پیچیدگیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔اسی لیے بہتر ہے کہ آپ سگریٹ نوشی چھوڑنے کی کوشش کریں،چاہے آپ نے پہلے کوشش کی ہو اور ناکام ہوئے ہوں۔
گرنے کا خطرہ
ہڈیوں کا خیال رکھنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ گرنے کے امکانات کم کرنے کے اقدامات کریں۔ ڈاکٹر شاؤ کہتے ہیں’’خاص طور پر جیسے جیسے عمر بڑھے، آپ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ گھر کس طرح ترتیب دیا گیا ہے تاکہ گرنے کا خطرہ کم ہو سکے۔‘‘اس کے لیے آپ یہ کر سکتے ہیں:
٭ راستوں سے ڈبے اور برقی تاریں ہٹا دیں
٭ غسل خانے میں پھسلن روکنے والی چٹائیاں استعمال کریں
٭ فرش کے تختے مرمت کریں
٭ راہداریوں میں نائٹ لائٹس لگائیں
ڈاکٹر شاؤ امید کرتے ہیں کہ زیادہ لوگ اپنی ہڈیاں مضبوط اور صحت مند رکھنے کو ترجیح دیں گے۔ وہ کہتے ہیں:’’میں چاہتا ہوں، لوگ ہڈیوں کی صحت کو نظرانداز نہ کریں۔ ظاہری چیزوں کے بارے میں سوچنا اور انہیں محسوس کرنا آسان ہے۔ لیکن آپ کا ڈھانچا (skeleton) ہی بنیاد ہے…آپ کے پورے جسم کی ساختی مدد۔ ہم جانتے ہیں کہ ہڈیوں کی صحت کا اثر صرف ان تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ انسان کی مجموعی تندرستی سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔‘‘