اتوار کو سپریم کورٹ کی کارکردگی کو درست ثابت کرنے کے لیے مختلف ڈیٹا سامنے لایا گیا۔ چیف جسٹس نے ایک سال کے دوران ججوں، وکلا اور وفاقی حکومت کی ان کی ثابت قدمی اور تعاون کی بنا پر تعریف کی ہے۔
تاہم، سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کا کہنا ہے کہ پریس ریلیز آئینی اختیار کے بجائے ادارہ جاتی کمزوری کی علامت ہے۔ اس کے مندرجات عدالتی اختیار کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ غیر ضروری انتظامی بیان بازی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اہم مسائل کا تذکرہ نہیں کیا گیا اور وہ مسائل حل نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ادارہ جاتی تعاون‘‘ کا جملہ اختیارات کی علیحدگی کے اصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔
عبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ نے کہا کہ پچھلے سال حکومت کی طرف سے بنائے گئے بینچوں کے ذریعے چنیدہ طور پر انصاف کی فراہمی دیکھی گئی ہے۔ حکومت کے مقرر کردہ جج شامل تھے جنہوں نے فرض شناسی سے حکومت کے لیے فیصلے دیے ہیں۔
ردا حسین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی خود کو مبارکباد دینے والی پریس ریلیز اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ عدلیہ کی ساکھ اور قانونی حیثیت پر عوام کا اعتماد اس کے نچلے ترین مقام پر ہے۔ نئے ضابطہ اخلاق کے تحت ججز کو اب انتظامی یا عدالتی معاملات پر عوامی طور پر بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ شفافیت نہیں ہے، ادارہ جاتی نظم کو برقرار رکھنے کی آڑ میں ججوں کو سنسر کیا جا رہا ہے۔
حافظ احسان احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران سپریم کورٹ نے اپنے کام کاج کو بہتر بنانے کے لیے کئی تعمیری اقدامات کیے ہیں، جن میں اس کے قوانین میں ترامیم، ڈیجیٹل تبدیلی اور فوجداری اور ٹیکس کے دائرہ کار پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہے۔ یہ مثبت پیش رفت ہیں جو جدیدیت اور رسائی کی طرف بتدریج تحریک کی عکاسی کرتی ہیں۔ تاہم اعلیٰ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مضبوط کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔