قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں وزارت صنعت کے حکام نے چینی کا استعمال کم کرنے کے لیے زیادہ ٹیکس لگانے کی تجویز دے دی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کنوینئر محمد عاطف خان کی زیر صدارت ہوا، جس میں وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ وسط نومبر سے قبل مارکیٹ میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کی جا سکتی ہے۔
وزارت صنعت حکام کے مطابق اس وقت ملک میں 17 لاکھ ٹن چینی کا ذخیرہ موجود ہے، جو 15 نومبر تک کافی ہے جبکہ ماہانہ کھپت 5 لاکھ 40 ہزار میٹرک ٹن ہے۔
کنوینیئر کمیٹی محمد عاطف خان نے کہا کہ اس وقت ملک میں 78 شوگر ملز فنکشنل ہیں، 78 شوگر ملوں کے مالکان صرف 25 ہیں۔
ذیلی کمیٹی نے شوگر ملز کے ڈائریکٹرز اور اکثریتی شیئر ہولڈرز کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ یہ معلومات میڈیا کو فراہم کی جائیں تاکہ عوام سیاسی پس منظر سے آگاہ ہو سکیں۔
محمد عاطف خان نے کہا کہ شوگر ملوں کے ڈائریکٹرز اور شیئر ہولڈر کی تفصیلات میڈیا کو دیں گے، میڈیا خود دیکھ لے گا کس شوگر مل کے پیچھے کیا سیاسی بیک گراونڈ ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال 40 کروڑ 20 لاکھ ڈالر (تقریباً 112 ارب روپے) کی چینی ایکسپورٹ ہوئی، جس سے قبل پرچون قیمت 125 سے 130 روپے فی کلو تھی لیکن بعد میں یہ 200 روپے تک جا پہنچی۔
حکام نے کہا کہ برآمد سے قبل شوگر ملز سے 140 روپے فی کلو سے زیادہ نہ بیچنے کا معاہدہ ہوا تھا، تاہم قیمتیں بڑھ گئیں۔
وزارت صنعت کے حکام کے مطابق چینی کی پیداوار میں ایک ملین ٹن کمی ہوئی ہے اور رواں سال پیداوار کا تخمینہ 5.8 ملین میٹرک ٹن ہے، ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے چینی کی درآمد کی ضرورت نہ پڑے یا صرف 2 لاکھ ٹن درآمد کرنی پڑے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ 70 فیصد چینی انڈسٹری استعمال کرتی ہے، عام صارف نہیں، حکام نے قیمتوں میں استحکام کے لیے درآمد کی تجویز دی اور کہا کہ نومبر میں قیمتیں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
وزارت صنعت نے چینی کا استعمال کم کرنے کے لیے زیادہ ٹیکس لگانے کی سفارش کی، جبکہ ایف بی آر حکام نے بتایا کہ چینی پر 15 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کا مقصد انڈسٹری کی حوصلہ شکنی تھا، لیکن اس کے بعد انڈسٹری نے مینوفیکچررز کی بجائے ہول سیلرز سے خریداری شروع کر دی۔
شوگر ملز کی کسانوں کو عدم ادائیگی، آڈٹ رپورٹ میں اہم انکشاف سامنے آگیا
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ 25-2024 نے شوگر مافیا کے کارناموں کا خلاصہ کردیا ہے۔ مالی سال 24-2023 میں مل مالکان نے گنے کے کسانوں کی 3 ارب 4 کروڑ 69 لاکھ سے زائد رقم ادا نہیں کی۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قانون کے مطابق گنا خریدنے پر مل کی جانب سے کسان کو 15 دن کے اندر ادائیگی لازم ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مل مالکان نے حکومت کے مختص کردہ ریٹ سے کم قیمت پر بھی گنا خریدا، ملا کر مل مالکان نے 3 ارب 5 کروڑ سے زائد رقم کسانوں کو ادا کرنی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ انکشافات کین کمشنر پنجاب کے آڈٹ کے دوران ہوئے اور اس حوالے سے متعلقہ محکمے کو اکتوبر 2024 میں آگاہ کیا گیا لیکن محکمے نے کوئی جواب نہ دیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمے نے دسمبر 2024 تک آڈٹ رپورٹ فائنل ہونے تک کوئی جواب نہیں دیا۔