واشنگٹن میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی، امریکی صدر کو دارالحکومت سے کیا مسئلہ ہے؟

0 minutes, 0 seconds Read

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں 800 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کرتے ہوئے شہر کی میٹروپولیٹن پولیس کا کنٹرول براہِ راست وفاقی حکومت کے تحت لے لیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ٹرمپ نے یہ فیصلہ شہر کے منتخب رہنماؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے کیا جو ان کے دوسرے صدارتی دور کے اس انداز کو ظاہر کرتا ہے جس میں وہ ایگزیکٹو اختیارات کو ایسے انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔ امریکی تاریخ میں اس طرح کے فیصلوں کی کم ہی مثال ملتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ دوسرا موقع ہے جب ریپبلکن صدر نے کسی ڈیموکریٹک کے زیر انتظام شہر میں فوجی تعینات کیے ہیں۔

اس سے قبل جون میں ٹرمپ نے لاس اینجلس میں 5 ہزار نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کیے تھے، جس پر مقامی حکومت نے شدید اعتراض کیا تھا۔

واضح رہے کہ واشنگٹن ڈی سی اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے زیر اثر ہے جہاں ری پبلیکنز کے مقابلے میں ڈیمیکریٹک پارٹی کے حمایت یافتہ ووٹرز کی بڑی تعداد آباد ہے۔

رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کو مبینہ لاقانونیت سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے اقدامات کو ضروری قرار دیا ہے۔

ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہمارا دارالحکومت پرتشدد گروہوں، وحشی و نشے میں دھت نوجوانوں اور بے گھر افراد کے قبضے میں آ چکا ہے۔

واشنٹگٹن ڈی سی کے کئی مقامات پر بے گھر افراد خیمے لگا کر زندگی گزار رہے ہیں صدر ٹرمپ دارالحکومت سے بے گھر افراد کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کمزور گروہوں کو جنہیں ٹرمپ نے مجرموں کے ساتھ جوڑ دیا ہے انہیں جبراً بے دخل کرنا مؤثر نہیں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صدر نے اپنے اعلان کے مطابق ان بے گھر افراد کو واشنگٹن سے نکالا، جہاں ان کے خاندان، سپورٹ نیٹ ورکس اور علاج معالجہ موجود ہے، تو یہ انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد شدید بیمار ہیں۔

واضح رہے کہ وفاقی اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں قتل اور دیگر پرتشدد جرائم میں اضافہ ہوا تھا، جس کے باعث واشنگٹن ملک کے مہلک ترین شہروں میں سے ایک بن گیا تھا۔

تاہم 2024 میں ان جرائم میں 35 فیصد کمی ہوئی، اور 2025 کے ابتدائی 7 ماہ میں مزید 26 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

ٹرمپ اور چین نے ایک دوسرے کو 90 دن کی مزید مہلت کیوں دی، ٹیرف جنگ بندی معاہدہ ٹوٹ گیا تو کیا ہوگا؟

ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کے دیگر بڑے شہر، جن پر ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت ہے، ان کا اگلا ہدف ہو سکتے ہیں، جن میں شکاگو بھی شامل ہے جو طویل عرصے سے پرتشدد جرائم کا شکار رہا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ”اگر ضرورت پڑی تو ہم شکاگو میں بھی یہی کریں گے، جو ایک تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ امید ہے لاس اینجلس بھی یہ سب دیکھ رہا ہوگا۔“

ٹرمپ کے دعوے مسترد

واشنگٹن کی ڈیموکریٹک میئر موریئل باؤزر نے ٹرمپ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ گزشتہ برس پرتشدد جرائم تین دہائیوں کی کم ترین سطح پر تھے۔

موریئل باؤزر نے ایک پریس کانفرنس میں محتاط رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کی انتظامیہ کے دیگر ارکان وفاقی حکومت کے ساتھ کام کریں گے، باوجود اس کے کہ وہ ٹرمپ کے دعوؤں کو دوبارہ مسترد کر رہی ہیں۔

اگرچہ باؤزر کا کہنا تھا کہ قانون صدر کو پولیس فورس پر عارضی کنٹرول کا وسیع اختیار دیتا ہے۔

دوسری طرف شہر کے اٹارنی جنرل برائن شوالب نے ٹرمپ کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا دفتر تمام آپشنز پر غور کر رہا ہے۔

کیا دراصل سیاہ فام ٹرمپ کے نشانے پر ہیں؟

این پی آر ویب سائٹ کے مطابق امریکی صدر کا ہدف وہ افراد ہیں جنہیں وہ مجرم قرار دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر سیاہ فام ہیں۔

واشنگٹن بعض اوقات نوجوان افراد کے باعث ہونے والے تشدد سے دوچار رہا ہے، خاص طور پر وہ جو موٹرسائیکلیں اور فور وہیلر چلاتے ہیں۔

میٹرو پولیس کی چیف پاملا اسمتھ سے جب واشنگٹن میں جرائم سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہر میں نوجوان محفوظ ہوں اور وہ شہر کی سرگرمیوں سے لطف اندوز ہوں، لیکن ہم اس قسم کی مجرمانہ سرگرمی کو برداشت نہیں کریں گے جو ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔

اسمتھ کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے کے وفاقی کنٹرول سے قبل، شہر کے بعض علاقوں میں نوجوانوں کے لیے کرفیو نافذ کیا گیا تھا جو مؤثر ثابت ہوا۔

گزشتہ چند دنوں میں درجن سے زائد وفاقی اداروں کے سینکڑوں افسران اور ایجنٹس واشنگٹن میں تعینات کیے گئے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق اٹارنی جنرل پام بونڈی پولیس فورس کی نگرانی کریں گی۔

امریکی فوج کا بیان

امریکی فوج نے کہا ہے کہ نیشنل گارڈ کے اہلکار مختلف ذمہ داریاں نبھائیں گے، جن میں انتظامی، لاجسٹک اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے لیے اہلکاروں کی موجودگی شامل ہے۔ کسی بھی وقت 100 سے 200 فوجی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کریں گے۔

Similar Posts