رات کا پرسکون وقت، 2 بج کر 17 منٹ دکھاتی گھڑی، تمام نفوس سوئے ہوئے، سب کچھ خاموش۔ لیکن پھر، اچانک، ایک منظر جو ہمیشہ کے لیے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے، دروازے کھلتے ہیں اور درجنوں بچے اپنے گھروں سے باہر نکل کر اندھیرے میں دوڑتے ہیں، جیسے پرندے اپنے گھونسلوں سے اڑ رہے ہوں۔ ان کے چہروں پر خوف ہے، حیرت ہے، اور ان کے قدم کسی انجانی قوت کے پیچھے لپک رہے ہیں۔
جارج ہیریسن کا گیت ’Beware the Darkness‘ فضا میں گونجتا ہے۔ یہ ’Here Comes the Sun‘ نہیں، یہ تاریکی کی ایک صدا ہے۔ اور یہی ہے آغاز زیک کریگر کی نئی فلم ’Weapons‘ کا، جو ناظرین کو ایک ایسے سفر پر لے جاتی ہے جہاں ہر موڑ پر شک، درد، اور پراسراریت ہے۔

ایک کہانی، کئی کردار
’باربیرین‘ کے بعد ’ویپنز‘ زیک کریگر کی دوسری فلم ہے، اور اس بار وہ زیادہ جرات مندانہ اور پیچیدہ کہانی سنا رہے ہیں۔ فلم مختلف کرداروں کے نقطہ نظر سے سنائی جاتی ہے، جن کی زندگیاں ایک ہی المیہ سے جڑی ہیں۔ ایک رات، ایک ہی اسکول کی تیسری جماعت کے 17 بچے اچانک غائب ہو جاتے ہیں، بغیر کسی اطلاع اور بنا کسی سراغ کے۔
ان سب بچوں کو کیمروں میں دیکھا جاتا ہے کہ وہ خاموشی سے اپنے گھروں سے نکل کر غائب ہو جاتے ہیں۔ صرف ایک بچہ اگلے دن اسکول پہنچتا ہے۔ سوالات بے شمار ہیں، کیا یہ کسی گیم یا خفیہ پیغام کا نتیجہ تھا؟ کیا ٹیچرکچھ چھپا رہی ہیں؟ اور آخر وہ ایک بچہ کیوں بچ گیا؟
کردار جو دل میں اتر جائیں
’جولیا گارنر‘ استاد کے کردار میں نظر آتی ہیں، ایک پیچیدہ، زخم خوردہ، اور بظاہر خودغرض عورت، جو رفتہ رفتہ بکھرتی جا رہی ہے۔ جب اس کی کار پر کسی نے ’چڑیل‘ (WITCH) لکھا، تو وہ محض الزام نہیں تھا۔ یہ شاید ایک پیش گوئی تھی۔
’جوش برولن‘ ایک ٹوٹے ہوئے باپ کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو اپنے لاپتہ بیٹے کے درد کو لے کر اندر ہی اندر ٹوٹ رہا ہے۔ وہ اور استاد، دونوں مل کر اس معمہ کو سلجھانے نکلتے ہیں۔ راستے میں ان کی ملاقات ایک بدمزاج نشے کے عادی شخص سے ہوتی ہے، ’آسٹن ایبرامز‘… جو فلم میں ہلکی پھلکی مزاح کا عنصر بھی لے کر آتا ہے۔
’ایمی میڈیگن‘ نے ایک عجیب، غیر متوقع اور نہ بھولنے والی خالہ کا کردار ادا کیا ہے۔ اور ’کیری کرسٹوفر‘ نے زندہ بچے کے طور پر ایک پراثر پرفارمنس دی ہے، جو درد کے باوجود سچ کو سامنے لانے کی کوشش کر رہا ہے۔

کیا یہ سب ’جادو‘ تھا؟
فلم کا آخری تیسرا حصہ ایک مافوق الفطرت موڑ لیتا ہے، جہاں اشارہ دیا جاتا ہے کہ ان سب واقعات کے پیچھے کوئی ’باہر کی قوت‘ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں فلم تھوڑی کمزور پڑتی ہے، جیسے حقیقی وجوہات کو سمجھانے کے بجائے جادو کا سہارا لیا جا رہا ہو۔ تاہم، کریگر کی خوبی یہ ہے کہ وہ چھوٹے شہروں کی ظاہری خوشنما زندگی کے پیچھے چھپے دکھ اور منافقت کو بخوبی بے نقاب کرتے ہیں۔

رات 2:17 پر مت جاگیں…
جی ہاں … ’ویپنز‘ (Weapons) … ایک ایسی فلم … جو آپ کو پراسراریت ، خوف، نفسیاتی تناؤ اور انسانی المیے کی ایک پیچیدہ گتھی میں الجھا دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جو رات کے پرسکون لمحوں کو پراسرار بنا دیتی ہے۔