نئی ماؤں اور بزرگوں کے درمیان بچوں کی ابتدائی غذا پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں۔
ایک طرف ڈاکٹر کی جانب سے دی گئی ہدایات ہیں جو واضح طور پر کہتی ہیں کہ ایک سال کی عمر تک بچوں کو نہ نمک دیا جائے، نہ چینی تو دوسری جانب برسوں سے چلتی آرہی خاندانی روایات ، جس کا کہنا ہے کہ، “ہم نے اپنے بچوں کو یہ سب دیا، وہ تو ٹھیک ہیں!“یہ وہ کشمکش ہے جو والدین کو الجھن میں ڈال دیتی ہے کہ کس کی بات مانیں اور کس کی نہیں۔
یہاں سوال صرف ذائقے کا نہیں، صحت کا ہے جو بچے کی آنے والی پوری زندگی پر اثر ڈال سکتا ہے۔
ڈاکٹر نندیتا رتنم، کنسلٹنٹ پیڈیاٹرکس، منی پال اسپتال بنگلور، کہتی ہیں، زندگی کے پہلے دو سال بچے کی صحت کی بنیاد ہیں، جیسے کسی عمارت کی بنیاد مضبوط ہونی چاہیے اسی طرح بچوں کی بنیاد کو بھی مضبوط ، متوازن اور دیرپا ہونی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس عرصے میں بچے کو جو بھی خوراک دی جاتی ہے وہ اس کی صحت ونشونما کے ساتھ ساتھ غذائی عادات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر شروعات چینی یا نمک سے کی جائے، تو وہ انہی ذائقوں کا عادی بن سکتا ہے، جو مستقبل میں موٹاپا، ذیابیطس اور بلند فشارِ خون جیسے مسائل کو جنم دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر راجیو چھابڑا، چیف پیڈیاٹریشن، آرٹیمس اسپتال، گڑگاؤں، کا بھی یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں، چھوٹے بچوں کے گردے ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوتے، اس لیے وہ اضافی نمک برداشت نہیں کر سکتے۔
وہ بتاتے ہیں کہ زیادہ چینی کھانے سے بچوں میں دانت خراب ہونے، بھوک کم لگنے اور صحت مند غذا کی رغبت کم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ماں کے دودھ یا فارمولہ دودھ میں بچے کو درکار تمام نمکیات موجود ہوتے ہیں ۔
ڈاکٹر پریملا تھروملیش، نیونٹولوجی اور پیڈیاٹرکس کنسلٹنٹ، کہتی ہیں کہ اگر بچوں کو ابتدا میں ہی چینی دے دی جائے تو ان میں میٹھے کھانوں سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے جس سے دانتوں کی خرابی، نیند میں خلل، چڑچڑا پن اور موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق، زندگی کے ابتدائی 1000 دن چینی سے پرہیز کرنے سے بالغ عمر میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
گھر کے بزرگوں کا اس بات پر ڈٹے رہنا کہ ہم نے اپنے بچوں کو نمک اور چینی کھلائی تھی مگر وہ تو ٹھیک ٹھاک رہے درست نہیں۔ ان بزرگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ دورمختلف تھا جب تحقیق کا دائرہ محدود تھا ، آج کے کھانوں میں چھپی ہوئی نمک اور چینی زیادہ ہوتی ہے۔
ڈاکٹرز کے نزدیک جب گھر کے بزرگوں کو منطقی انداز میں بات سمجھائی جائے تو وہ سمجھ جاتے ہیں اگرچہ کے انہیں بدلنا آسان نہیں ہوتا ہے۔
بزرگ اکثر مصالحے دار یا نمکین کھانوں کو ”ذائقہ دار“ سمجھتے ہیں اور سادہ غذا کو بد مزہ یا غیر صحت بخش۔ حالانکہ بچوں کے لیے سادہ غذا بہتر ہے۔
نئے والدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہمارے بزرگ ایک ایسے دور میں پلے بڑھے جب کھانے زیادہ قدرتی ، خالص اور ملاوٹ سے پاک ہوتے تھے۔ گھی، مکھن، مٹھائیاں سب صحت مندی کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ لیکن آج کل کے پروسیسڈ کھانوں نے صحت کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔
ماہرِین نفسیات، کہتے ہیں، بزرگوں کو لگتا ہے کہ کھانے پر پابندیاں بچے کی نشوونما کے خلاف ہیں، جیسے بچے سے خوشی چھینی جا رہی ہو۔
ساتھ ہی، انہیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ان کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔انہیں لگتا ہے کہ اب وہ بچے کی تربیت میں کم اثر رکھتے ہیں۔
ماہرین کا مشورہ ہے کہ پہلے دو سال چینی اور نمک سے مکمل پرہیز کیا جائے۔
قدرتی مٹھاس جیسے کیلا، آم یا سبزیوں کے ذریعے قدرتی مٹھاس دیں اور اناج ، سبزیاں اور دالیں ، اصل ذائقہ تو یہی ہے۔
ڈاکٹر تھروملیش کے مطابق 12 ماہ کے بعد آہستہ آہستہ نمک اور کبھی کبھار چینی دی جا سکتی ہے، مگر خیال رہے کی ان کی مقدار کم ہو البتہ ذائقہ بڑھانے کے لیے ہربز یا ہلکے مصالحے استعمال کیے جا سکتے ہیں، جو صحت پر برا اثر نہیں ڈالتے۔
نئے والدین اور بزرگ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے بچے کی بھلائی اور بہتری۔ جب ہم جان لیتے ہیں کہ ان مشوروں کو کیوں دیا جاتا ہے ان کا مقصد کیا ہے تو پھر انہیں تسلیم کرنا اور ماننا آسان ہوجاتاہے۔
روایات کا احترام کرنا اورا سے اپنانا اچھا ہے، لیکن سائنسی تحقیق سے حاصل شدہ معلومات پرعمل اور اعتماد کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔