انسانی بالوں سے تیار کردہ ٹوتھ پیسٹ دانتوں کے لیے مددگار؟ سائنسدانوں کی حیران کن تحقیق

انسانی بالوں سے دانت صاف کرنے کا کبھی کسی نے خیال بھی نہیں کیا ہوگا مگر سائنسدانوں کی اس حوالے سے حیران کن تحقیق سامنے آئی ہے۔

برطانیہ کے کنگز کالج لندن کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ انسانی بالوں سے تیار کردہ ٹوتھ پیسٹ دانتوں کے خراب اینمل (enamel) کی مرمت اور ابتدائی کیویٹی کو روکنے میں مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے ایڈوانسڈ ہیلتھ کئیر مٹیریلز (Advanced Healthcare Materials) میں شائع ہوئی ہے۔

تحقیق کے مطابق کیرٹن (Keratin) جو کہ بال، جلد اور اون میں پایا جانے والا ایک قدرتی پروٹین ہے، جب تھوک میں موجود معدنیات کے ساتھ ردِعمل کرتا ہے، تو یہ قدرتی اینمل کی ساخت اور افعال کی نقل کرتے ہوئے دانتوں پر حفاظتی تہہ تشکیل دیتا ہے۔

تحقیق کی مرکزی مصنفہ اور کنگز کالج لندن میں پی ایچ ڈی کی طالبہ سارہ گمیع نے کہا کہ کیرٹن موجودہ ڈینٹل ٹریٹمنٹس کے لیے ایک انقلابی متبادل پیش کرتا ہے۔

سارہ گمیع کے مطابق یہ ٹیکنالوجی حیاتیات اور دندان سازی کے درمیان خلا کو پُر کرتی ہے، اور ایک ایسا ماحول دوست بایو مٹیریل فراہم کرتی ہے جو قدرتی عمل جیسا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پروٹین نہ صرف بال اور جلد جیسے حیاتیاتی فضلے سے حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ روایتی پلاسٹک ریزن کے استعمال کو بھی ختم کرتا ہے جو عام طور پر دانتوں کی مرمت میں استعمال ہوتے ہیں، لیکن یہ زہریلے اور کم پائیدار ہوتے ہیں۔

تحقیق میں سائنسدانوں نے اون سے کیرٹن نکالنے کا طریقہ اپنایا اور جب اس پروٹین کو دانتوں کی سطح پر لگایا گیا اور یہ تھوک میں موجود معدنیات سے ملا، تو اس نے ایک منظم، کرسٹل نما ڈھانچہ تشکیل دیا جو قدرتی اینمل کی ساخت جیسا تھا۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ڈھانچہ کیلشیم اور فاسفیٹ آئنز کو اپنی طرف کھینچتا ہے، جس سے دانتوں کے گرد ایک مضبوط حفاظتی تہہ بنتی ہے جو قدرتی اینمل جیسی ہوتی ہے۔

کیا یہ دوائی دنیا سے گنج پن کا خاتمہ کردے گی؟

سائنسدانوں کے مطابق تیزابیت کرنے والی غذائیں، مشروبات، ناقص صفائی اور بڑھتی عمر دانتوں کے اینمل کو متاثر کرتی ہیں، جس سے دانت ٹوٹنے کا شکار ہو جاتے ہیں۔

تحقیق کے سینئر مصنف اور پروسٹھوڈانٹکس کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر شریف الشرقاوی کا کہنا تھا کہ ہڈیوں اور بالوں کے برعکس، دانتوں کا اینمل دوبارہ پیدا نہیں ہوتا، اور ایک بار اگر یہ ختم ہو جائے تو واپس نہیں آتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک ایسے دلچسپ دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں بایوٹیکنالوجی کی مدد سے ہم نہ صرف علامات کا علاج کر سکتے ہیں بلکہ جسم کے اپنے مواد سے اصل حیاتیاتی افعال کو بحال بھی کر سکتے ہیں۔

Similar Posts