آل پارٹیز کانفرنس کے شرکا نے 18ویں آئینی ترمیم کی اصل روح کے مطابق مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کردیا ہے۔ جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سرکاری فنڈز کا 10 فیصد حصہ غیرریاستی مسلح گروہوں کو دیا جاتا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے زیراہتمام آل پارٹیز کانفرنس اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ہوئی۔ جس کی صدارت مرکزی صدر اے این پی سینیٹر ایمل ولی نے کی جبکہ کانفرنس میں تمام جماعتوں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔
آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور بدامنی کوحکومتی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ قراردیا گیا ہے۔
فورم نے مسائل کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ اے پی سی میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنز کو فوری طور پرختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
فورم نے کہا کہ جانی و مالی نقصانات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات عدلیہ کی نگرانی میں قائم کردہ ایک ٹروتھ کمیشن کے ذریعے کی جائیں۔
بعدازاں آل پارٹیز کانفرنس سے جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پیپلزپارٹی کے رہنما نیئر بخاری، ایمل ولی اور دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔
مولانا فضل الرحمان
اسلام آباد میں منعقدہ عوامی نیشنل پارٹی کی اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) کے سربرہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایسی مجالس ہونی چاہیں جہاں پر کھل کر بات چیت ہوسکے، قبائلی علاقوں میں مسلح گروہوں کا راج ہے ، سرکاری فنڈز کا 10 فیصد یہ مسلح گروہ لے جاتے ہیں۔ تاجر کاروبار نہیں کرسکتے ہر کسی کو بھتہ دینا پڑتا ہے، حکومت کی رٹ کے حوالے سے یہ بڑاسوالیہ نشان ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے معدنی ذخائر عوام کی ملکیت ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کریں تو نوکریوں اور وسائل مقامی لوگوں کا حصہ ہے، معاملات حل کرنے کے بجائے طاقت ور ادارے اپنی اتھارٹی قائم کرنے کے چکر میں ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ملک کے سیاسی اور پارلیمانی نظام پر سوالیہ نشان ہے، یہ عوامی نمائندہ حکومت نہیں انتخابات میں عوام کا مذاق اڑایا گیا، نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے وقت اجلاس میں موجود تھا، ہم نے نیشنل ایکشن پلان کے کچھ حصوں پر اعتراض کیا ہماری نہیں سنی گئی۔ ہم آج بھی کہتے ہیں نیشنل ایکشن پلان سے امتیازی حصوں کو نکالا جائے،
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور باجوڑ میں جنازے اٹھ رہے ہیں، ملک میں امن لانے کے لیے مستحکم اکنامکس پلان بنایا جائے، جب محرومیت کو فروغ ملے گا تو دہشت گردی بڑھے گی، ہمیں قومی سطح پر نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی
مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نفرت کی سیاست کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی، پنجاب کو گالی دینے سے کچھ نہیں ملے گا، احتجاج اور دھرنوں کی سیاست ملکی مفاد میں نہیں، آئین پاکستان نے تمام اکائیوں کو جوڑے رکھا ہوا ہے، اختلاف رائے رکھتے ہوئے شائستگی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ہر گناہ فوج پر ڈال دینا درست نہیں، کیا ہمارے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے، فوج کہیں باہر سے نہیں ائی یہ ہماری اپنی فوج ہے، ملک میں ہر آفت کا سامنا آکر فوج نے ہی کیا ہے، ہماری فوج نے پانچ گنا بڑے دشمن کو شکست دی، پاک فوج سرحدوں کی بہترین محافظ ہے، ملکی اداروں پر بلاجواز تنقید درست نہیں، فوجی افسران اور جوان روزانہ شہید ہو رہے ہیں۔
ان کے بقول اس ملک کے 4 آمروں نے جڑیں کھوکھلی کیں، فوج سے ہزار شکایتیں ہوں گی لیکن وہ ہماری فوج ہے، ہمیں مسائل کے حل کے لیے وسیع پیمانے پر مذاکرات کرنے چائیں۔
ایمل ولی
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی نے اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں عوام کٸی مسائل کا شکار ہیں، وزیرستان میں کئی افراد سالوں سے واپس گھر نہیں جا سکے دیگر صوبے ترقی کررہے ہیں، ہمارے وسائل ضائع ہو رہے ہیں۔
ایمل ولی نے کہا کہ ہماری پنجابیوں سے کوئی مخالفت نہیں ہے، وہ ہمارے بھائی ہیں، روز اول سے یہ ہورہا ہے کہ ہمارے علاوہ سب ترقی کر رہے ہیں، ہم اگر آئین پاکستان پر عمل درآمد کی بات کرتے ہیں تو ہم غدار نہیں ہیں، ہم حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہم پر اگلیاں نہ اٹھائی جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ وہ تمام قوموں کو اس کا حق دے گا، ہم بھی اسی آئین کے تحت اپنا حق مانگتےہیں۔
نیئر حسین بخاری
پیپلزپارٹی کے رہنما نیئر حسین بخاری نے آل پارٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو آئین دیا، آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد خوش آئند ہے، کوئی بھی شہری کسی بھی جماعت میں جاسکتا ہے، حکومت کے ساتھ کیوں ہیں اس کی وجوہات ہیں، ہم ملک میں جہوری نظام کا تسلسل چاہتے ہیں، حالیہ الیکشن میں کسی جماعت کی اکثریت نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ اے پی سی بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے ایشو پر بلائی گئی، 1973 کا آئین متفقہ ہے، اگر اس آئین کو چھیڑا گیا تو نیا آئین بنانا مشکل ہوگا حالات جیسے بھی ہوں، سیاسی قیادت کو ہی مذاکرات کرنے چاہئیں۔