خاندان میں شادیاں موروثی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ: ڈاکٹر جاوید اکرم

0 minutes, 0 seconds Read

پاکستان اور برصغیر کے دیگر ممالک میں قریبی رشتہ داروں میں شادیاں صدیوں سے ایک عام روایت رہی ہیں۔ خاندان اسے ثقافتی، سماجی اور مالی اعتبار سے موزوں سمجھتے ہیں۔ لیکن طبّی ماہرین بار بار خبردار کر چکے ہیں کہ قریبی رشتہ داروں میں شادیاں آنے والی نسلوں کے لیے خطرہ بن رہی ہیں کیونکہ ان سے موروثی بیماریوں کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

موروثی بیماری وہ مرض ہے جو والدین کے جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اگر والدین دونوں کسی بیماری کے جین کے کیریئر ہوں تو بچے کے بیمار پیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ والدین اکثر خود بیماری کا شکار نہیں ہوتے لیکن وہ جینیاتی طور پر یہ رجحان اپنی اولاد کو منتقل کر دیتے ہیں۔

کزن میرج اور جینیاتی خطرات

برطانیہ اور یورپ بھر میں بڑھتی ہوئی کزن میرج پر نظرثانی کی جا رہی ہے، خصوصاً ڈاکٹرز اس پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ سگے کزنز کے بچوں میں مختلف قسم کے صحت کے مسائل کا سامنا کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بریڈفورڈ سے سامنے آنے والے نئے اور ممکنہ طور پر تشویش ناک ڈیٹا نے اس بحث کو مزید تقویت دی ہے۔ شہر کی یونیورسٹی کے محققین ”بورن اِن بریڈفورڈ“ (Born in Bradford) تحقیق کے 18ویں سال میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی طبی تحقیقات میں سے ایک ہے۔

2007 سے 2010 کے دوران، محققین نے 13 ہزار سے زائد نومولود بچوں کو اس مطالعے میں شامل کیا اور ان کی پرورش کو بچپن سے لڑکپن اور اب جوانی تک مسلسل فالو کیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ شامل بچوں میں سے ہر چھ میں سے ایک بچے کے والدین سگے کزن تھے، اور یہ شرح زیادہ تر بریڈفورڈ کی پاکستانی کمیونٹی میں پائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبہ دنیا میں کزن میرج کے صحت پر اثرات کو سمجھنے کے لیے سب سے قیمتی تحقیقی مطالعات میں شمار ہوتا ہے۔

قریبی رشتہ داروں کے جینز ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ جب ایسے افراد کی آپس میں شادیاں ہوتی ہیں تو بیماری والے جین کے دہرانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر والدین دونوں کیریئر ہوں تو بچے کے متاثر ہونے کا امکان تقریباً 25 فیصد تک ہوتا ہے۔ کزن میرج میں یہ شرح کہیں زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ دونوں خاندانوں کا جینیاتی پس منظر ایک جیسا ہوتا ہے۔

پاکستان میں صورتحال

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں کزن میرج کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں موروثی بیماریوں کی شرح بھی خطرناک حد تک بلند ہے۔

تاہم اس سلسلے میں حکومتی اقدامات بھی کئے جاتے ہیں، سابق نگران وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر جاوید اکرم نے چلڈرن اسپتال لاہور میں موروثی بیماریوں سے متعلق سیمینار سے خطاب میں کہا کہ دنیا بھر میں 40 کروڑ بچے موروثی بیماریوں کا شکار ہیں، جن میں تھیلیسیمیا بھی شامل ہے۔

انہوں نے پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں موروثی بیماریوں کی شرح تقریباً 60 فیصد ہے اور ان کی بڑی وجہ خاندانوں میں شادیاں ہیں۔ یہاں بچے سب سے زیادہ تھیلیسیمیا کا شکار ہیں، اس مقصد کے لیے ڈاکٹروں نے دیہات میں چیرٹی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ مہنگے ٹیسٹ اور علاج برداشت نہ کر سکنے والے مریضوں کو مفت علاج فراہم کیا جا سکے۔

عام موروثی بیماریاں

  1. تھیلی سیمیا ۔ خون کی ایک سنگین بیماری، جس میں مریض کو زندگی بھر خون لگوانا پڑتا ہے۔
  2. ہیمر وفیلیا ۔ خون جمنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، معمولی زخم بھی جان لیوا ہو سکتا ہے۔
  3. سننے اور دیکھنے کی پیدائشی معذوریاں۔
  4. ذہنی معذوری اور آٹزم کی کچھ اقسام۔
  5. نایاب اعصابی بیماریاں جن میں بچوں کو حرکت یا بولنے میں دشواری ہوتی ہے۔

پاکستان کے بڑے ہسپتالوں اور تحقیقی اداروں کے مطابق، ’ملک میں 90 فیصد تک جینیاتی امراض کزن میرج سے منسلک ہیں۔ تھیلی سیمیا کے زیادہ تر کیسز انہی شادیوں کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات میں موروثی بیماریوں کا بڑا حصہ ہے۔‘

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والی نسلیں مزید خطرات سے دوچار ہوں گی۔

سماجی اور ثقافتی پہلو

ہمارے معاشرے میں اکثر بیماریوں کو ’قسمت‘، ’نظر بد‘ یا ’جادو‘ سے منسوب کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بروقت علاج نہیں ہو پاتا۔ دیہی علاقوں میں تو نایاب امراض کا ذکر تک نہیں ہوتا اور متاثرہ خاندان نسل در نسل بیماریوں کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔

حل اور تجاویز میں کیا کرسکتے ہیں؟

شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ کئے جائیں تاکہ والدین کو معلوم ہو سکے کہ وہ کسی بیماری کے کیریئر ہیں یا نہیں۔ کئی ممالک میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کروانا قانون ہے۔ پاکستان میں بھی اس پر عمل ہونا چاہیے۔ تاکہ موروثی بیماریوں کا خطرہ نہ ہو۔

اس کے علاوہ آگاہی مہم چلائی جئیں اور میڈیا، اسکولوں، کالجوں اور مساجد کے ذریعے عوام کو شعور دیا جائے کہ کزن میرج صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔

ریسرچ اور علاج پر سرمایہ کاری کرنا بھی ضروری ہے۔ نایاب اور موروثی امراض کے لیے مقامی لیبارٹریز اور تحقیقاتی مراکز کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ مریض بروقت اور درست علاج حاصل کر سکیں۔

قریبی رشتہ داروں میں شادیاں بظاہر خاندانوں کو قریب کرتی ہیں، مگر حقیقت میں یہ آنے والی نسلوں کی صحت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ معاشرہ اپنی سوچ بدلے اور روایت کے بجائے سائنس اور صحت کو ترجیح دے۔ والدین کو یہ سوچنا ہوگا کہ شادی کا فیصلہ صرف خاندان کو خوش کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اپنی آنے والی نسل کو صحت مند بنانے کے لیے بھی ہونا چاہیے۔

Similar Posts