عالمی شہرت یافتہ جج فرینک کیپریو کے فیصلے جو کتابوں میں نہیں، دلوں میں درج ہوئے

0 minutes, 5 seconds Read

دنیا بھر میں بہت سی قانونی شخصیات نے شہرت حاصل کی، لیکن چند ہی ایسے نام ہیں جو عدالت کی چار دیواری سے نکل کر عوام کے دلوں میں گھر کر گئے۔ ان میں سے ایک نام ہے ’معزز جج فرینک کیپریو‘ کا۔ وہ صرف ایک جج نہیں تھے بلکہ ایک ایسے انسان تھے جنہوں نے عدالتی کرسی پر بیٹھ کر قانون کو سختی کے بجائے انسانیت اور رحمت کا روپ دیا۔

عالمی شہرت یافتہ معزز جج فرینک کیپریو جنہیں ’دنیا کے سب سے شفیق جج‘ کے نام سے جاتا تھا، 20 اگست 2025 کو 89 سال کی عمر میں پینکریاٹک کینسر کے عارضے میں طویل عرصے مبتلا رہنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ خبر ان کے انسٹاگرام پیج اور دیگر سوشل میڈیا چینلز پر ایک جذباتی پیغام میں خاندان کی جانب سے شئیر کی گئی۔

فرینک کیپریو نے طویل عرصے تک پراویڈنس میونسپل کورٹ کے چیف جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اپنے انصاف پسند اور ہمدردانہ فیصلوں کی وجہ سے بے حد مقبول ہوئے۔

ان کے فیصلوں اور طرزِ عمل نے انہیں عالمی سطح پر پہچان دلوائی۔ ان کی عدالت میں پیش ہونے والے چھوٹے چھوٹے ٹریفک یا جرمانے کے کیسز جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تو دنیا نے پہلی بار یہ دیکھا کہ انصاف صرف سزا دینے کا نام نہیں بلکہ دلوں کو چھو لینے والا عمل بھی ہو سکتا ہے۔

ٹی وی شو Caught in Providence نے انہیں دنیا کے کونے کونے میں لاکھوں دلوں تک پہنچایا۔ عدالت کی وہ عام سی کارروائیاں جو اکثر لوگوں کو خوفناک لگتی ہیں، جب کیپریو صاحب کے انداز میں سامنے آئیں تو وہ محبت، ہمدردی اور خوش دلی کی حسین مثالیں بن گئیں۔ ان کے فیصلے صرف قانون کے تقاضوں کو نہیں پورا کرتے تھے بلکہ دلوں کو بھی سکون اور امید دیتے تھے۔

اس شو کا اصل مقصد صرف جرمانے یا قانون کی سختی نہیں تھا بلکہ، انسانی پہلو کو اجاگر کرنا تھا جج کیپریو ہمیشہ ملزم کی کہانی سنتے، ان کی مشکلات سمجھتے اور رحم و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے۔ وہ محض قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے تھے بلکہ ہر ملزم کو ایک انسان سمجھ کر اس کے حالات، مشکلات اور جذبات کو بھی سامنے رکھتے تھے۔

سوشل میڈیا پر وائرل لمحات کی وجہ سے اس کے ویوز اربوں تک جا پہنچے اور جج کیپریو کو ”دنیا کے سب سے مہربان جج“ کا لقب ملا۔

آئیے، جج فرینک کیپریو کے چند مشہور و دلچسپ فیصلوں کی روداد جانتے ہیں جو صرف قانون کے فیصلے نہیں بلکہ انسانیت کی جیت بھی تھے۔

1- پاکستان سے تعلق رکھنے والے جوڑے کا کیس

فرینک کیپریو کی عدالت میں ایک پاکستانی نژاد شوہر اور بیوی پیش ہوئے جن پر پارکنگ کی خلاف ورزی کا مقدمہ تھا۔ شوہر نے وضاحت کی کہ بیوی چونکہ شہر کے نئے قوانین سے پوری طرح واقف نہیں تھیں، اس لیے غلطی سے گاڑی ممنوعہ جگہ پر پارک کر دی گئی۔

جج فرینک کیپریو نے ہمیشہ کی طرح نرمی اور ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو شروع کی۔ دورانِ سماعت شوہر نے ہنستے ہوئے سارا قصور اپنے سر لے لیا اور کہا، ’یہ سب ہماری نئی شادی اور شہر میں نئے آنے کی وجہ سے ہوا۔‘

عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ جج کیپریو نے مسکراتے ہوئے کہا، ’ہم پاکستان کے بارے میں بہت سی اچھی باتیں سنتے ہیں۔‘

کیس کے اختتام پر جج نے جرمانے میں رعایت دیتے ہوئے دونوں کو خوشگوار انداز میں رخصت کیا۔ اسی وقت شوہر نے مؤدبانہ انداز میں درخواست کی کہ وہ جج صاحب کے ساتھ ایک تصویر لینا چاہتا ہے۔ پھر اس نے شکریے کے طور پر جج کو ایک روایتی پشاوری ٹوپی پیش کی۔

جج فرینک کیپریو نے خوشی سے ٹوپی پہنی اور مزاحیہ انداز میں کہا، ’اب میں آنریری پاکستانی ہوں۔‘ یہ سنتے ہی کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔

جج فرینک کیپریو نے اس پاکستانی جوڑے کو اپنے گھربھی مدعو کیا۔ یہ ملاقات رسمی نہیں بلکہ دوستانہ ماحول میں ہوئی۔ جج صاحب نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا لطف اٹھایا اور پاکستان کی ثقافت، روایات اور مہمان نوازی پر بات کی۔ یہ وڈیو بھی یوٹیوب اور سوشل میڈیا پروائرل ہوئی اور اب بھی دیکھی جارہی ہے۔

گھر کی اس نشست میں ہنسی، محبت اور احترام کی ایک خوبصورت جھلک نظر آئی۔ جج کیپریو نے کہا کہ ایسے لمحات انہیں یاد دلاتے ہیں کہ انسانیت سرحدوں سے بالاتر ہے۔

2- 96 سالہ بزرگ باپ پر ٹریفک چالان

سب سے دل کو چھو لینے والا لمحہ وہ تھا جب ایک 96 سالہ بزرگ وِکٹر پیش ہوئے، یہ ان کی زندگی کا پہلا ٹریفک چالان تھا۔
معزز جج کیپریو نے پوچھا، ’بابا جی، اس عمر میں آپ گاڑی کیوں چلاتے ہیں؟‘

وِکٹر نے دھیرے سے کہا، ’میں صرف ضرورت پر نکلتا ہوں۔ اُس دن اپنے 63 سالہ بیٹے کو بلڈ ٹیسٹ کے لیے اسپتال لے جا رہا تھا۔ اسے کینسر ہے۔‘

یہ سن کر پورا کمرہ عدالت خاموش ہوگیا۔ معزز جج فرینک کیپریو کی آنکھوں میں آنسو آگئے، وہ نرم لہجے میں بولے، ’آپ ایک عظیم باپ ہیں۔ خدا آپ کو اور آپ کے بیٹے کو صحت دے۔ آپ کا کیس ختم۔‘

بعد میں وہ عدالت کے باہر بھی ان سے ملے اور ان کی پوری زندگی کی کہانی سنی۔ وکٹر کا مشورہ یہ تھا کہ ہمیشہ اچھے کام کرو، دوسروں کو تنگ نہ کرو اور ہر اتوار چرچ جایا کرو۔ جج کیپریو نے ان کے 100ویں سالگرہ پر خود کیک لا کر ان کے ساتھ خوشی منائی۔

3- کامیاب طالبہ کا کیس

ایک نوجوان طالبہ پر ٹریفک سگنل توڑنے کا مقدمہ آیا۔ جج کیپریو نے نرمی سے پوچھا، ’بیٹی، تم کیا پڑھتی ہو؟‘

طالبہ نے ڈرتے ہوئے کہا، ’انجینئرنگ اور میتھ۔ اُس دن میں اپنے A گریڈز کی خوشی منا رہی تھی۔‘

جج کیپریو نے فخر سے مسکرا کر کہا، ’تم نے اپنی محنت سے یہ گریڈز حاصل کیے ہیں، اور میں تمہیں اس پر انعام دیتا ہوں۔ تمہارا کیس ختم۔‘

4- پیزا ڈیلیوری کرنے والا لڑکا

پروویڈنس کی عدالت میں ایک نوجوان حاضر ہوا جو پیزا ڈیلیوری کر کے اپنے گھر کا خرچ چلاتا تھا۔ جج کیپریو نے ہنستے ہوئے پوچھا، ’تو کیا یہ بات درست ہے کہ تم کبھی کبھار پیزا گرم پہنچانے کے لیے تیز گاڑی چلاتے ہو؟‘

نوجوان معصومیت سے بولا، ’جی ہاں، جج صاحب!‘

کمرہ عدالت ہنسی سے گونج اٹھا۔ جج کیپریو نے کہا، ارے بیٹے! تمہیں تو کہنا چاہیے تھا کہ ’نہیں، میں کبھی تیز نہیں چلتا۔‘
پھر شفقت سے مسکرا کر بولے، ’تم محنتی آدمی ہو، خدا تمہیں کامیاب کرے۔ تمہارا کیس ختم کیا جاتا ہے۔‘

5- معمر خاتون کے ساتھ نرمی کا معاملہ

ایک معمر خاتون ’جوانا‘ عدالت میں پیش ہوئیں۔ جج صاحب نے ویڈیو شواہد دکھانے کا کہا تو خاتون نے معصومیت سے کہا، ’میں قصوروار ہوں، آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔‘

یہ بات سن کر پوری عدالت ہنس پڑی۔ جج صاحب نے باوجود اس کے کہ وہ خود گناہ قبول کر رہی تھیں، تفصیل سے کیس دیکھا اور ان کے کئی ٹکٹ معاف کر دیے۔ آخر میں جرمانہ بھی کم کر دیا۔ دورانِ سماعت خاتون نے ہنستے ہوئے کہا، ’آپ بڑے ذہین ہیں، اسی لیے جج بنے ہیں۔‘

معززجج نے جواب دیا، نہیں… میں تو بس خوش قسمت ہوں۔’

یہ گفتگو ان کی عاجزی اور محبت بھری طبیعت کی بہترین مثال ہے۔

6- ایک طالبہ سچ اور جھوٹ کے بیچ ایک مسکراہٹ

ایک نوجوان طالبہ کیری نے پارکنگ کی خلاف ورزی کی، مگر اس کے پاس بہانے ہی بہانے تھے۔ بار بار اس طالبہ کی جانب سے ’Honestly‘ کہنے پر جج صاحب نے مسکرا کر کہا، ’جتنا زیادہ آپ ’Honestly‘ کہتی ہیں، اتنا ہی مجھے شک ہونے لگتا ہے۔‘

پھر بھی انہوں نے اسے معاف کر دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ٹوئنگ سروس پہلے ہی بھاری قیمت وصول کر چکی ہے۔ بعد میں انٹرویو میں کہا، ’ایک چیز کبھی فیک نہیں ہو سکتی، اور وہ ہے مسکراہٹ۔ اور اس کے پاس ایک سچی مسکراہٹ تھی… honestly!‘

ان کا یہ انداز ان کی انسان دوستی اور دلوں کو پڑھنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔

7- ’پانچ دن جیل‘ ایک بچے نے ماں کی سزا تجویز کی

ایک ماں اپنے پانچ بچوں کے ساتھ عدالت میں آئی۔ جج صاحب نے سب سے باتونی بچے الیکس کو ’جج‘ بنا دیا۔ جب پوچھا گیا کہ کیا ماں قصوروار ہے؟ تو اس نے انکار کیا۔ مگر اگلے ہی سوال پر، جب جج نے کہا، ’کیا ماں کو جیل جانا چاہیے؟‘
تو الیکس نے معصومیت سے کہا، ’پانچ دن جیل!‘

اور عدالت قہقہوں سے گونج اٹھی۔ آخر میں جج کیپریو نے الیکس سے کہلوایا، ’دِس کیس از ڈس مسڈ‘ اور ہتھوڑی سے ٹیبل پر آرڈرکروایا۔ یہ منظر دنیا بھر میں وائرل ہوا اور جج کیپریو کی شفقت اور حسِ مزاح کو مزید نمایاں کیا۔

8- ٹریفک جرمانے کا کیس اورمیاں بیوی کی خوبصورت نوک جھونک

جج فرینک کیپریو کی عدالت میں ایک ایسا لمحہ آیا جس نے سب کو ہنسی سے لوٹ پوٹ کر دیا۔ یہ واقعہ اتنا مشہور ہوا کہ ابھی ان کے انتقال کے بعد دوبارہ وائرل ہو گیا اور لوگوں کو یاد دلایا کہ آخر کیوں وہ صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اتنے پیارے تھے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ لِنڈا فیلڈز اپنے شوہر کے ساتھ ایک ٹریفک کیس کے معاملے میں عدالت آئی۔ جج نے معمول کے مطابق بات شروع کی تو لِنڈا نے بڑے اطمینان سے کہا، ’یہ میرا لاجواب شوہر ہے، ٹکٹ فائن تو مجھے ملا ہے لیکن گاڑی یہ چلا رہا تھا۔ میں قصوروار نہیں، یہ ہے۔‘

یہ سنتے ہی کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اُٹھا۔

مزید پوچھنے پر پتہ چلا کہ اصل میں شوہر صاحب روزانہ اپنے بیٹے سے ملنے اسپتال جا رہے تھے، جو ایک حادثے کے بعد زیرِ علاج تھا۔ جلدی میں انہوں نے لال بتی کو پیلا سمجھ کر کراس کر لیا، اور یوں بیوی پرجرمانہ آ گیا۔ شوہر نے کہا تھا، ’جرمانہ بھر دو، بات ختم کرو۔‘ مگر بیوی صاحبہ نے کہا، ’نہیں، یہ قصوروار ہے، میں نہیں!‘

ان کے درمیان اور عدالت میں خوبصورت مکالموں پر ماحول بہت خوشگوار رہا۔ آخر میں جج نے اپنی مخصوص شفقت اور مزاح کے امتزاج کے ساتھ ٹکٹ مسترد کر دیا۔

9- نوجوان لڑکی کا کیس

ایک دن ’کوٹ اِن پروویڈنس‘ کی عدالت میں ایک نوجوان لڑکی پیش ہوئی۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ تھی اور اس پر الزام تھا کہ اُس نے ایک پارٹی میں شور شرابہ کیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اُس بڑی محفل میں سے صرف اسی پر چارج تھا۔ باقی سب تو بچ نکلے، مگر یہ بیچاری سیدھی جج فرینک کیپریو کے سامنے کھڑی تھی۔

جج صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ’تو پھر یہ بتاؤ بی بی، صرف تم ہی پولیس کو کیوں نظر آئیں؟ کیا تم پارٹی کی ملکہ تھیں؟‘
لڑکی جھجکتے ہوئے بولی، ’جی نہیں سر… بس میوزک تھوڑا اونچا تھا اور شاید میں زیادہ انجوائے کر رہی تھی۔‘

جج کیپریو نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ کہا، ’بیٹی! خوش ہونا برا نہیں ہے۔ زندگی میں مسکرانا، ہنسنا، ناچنا سب جائز ہے۔ لیکن یاد رکھو، اگر تمہاری خوشی کسی اور کے سکون کو چھین لے تو وہ خوشی نہیں بلکہ شور بن جاتی ہے۔‘
یہ سن کر لڑکی کے چہرے پر سنجیدگی آگئی۔ اُس نے شرمندگی سے کہا، ’میں نے سبق سیکھ لیا ہے جج صاحب۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘

جج کیپریو نے پیار بھری مسکراہٹ کے ساتھ فیصلہ سنایا، ’چلو پھر، آج تمہیں قانون کی سزا نہیں، بلکہ ایک نصیحت ملتی ہے، ’پارٹی ضرور کرو، خوش رہو، لیکن یاد رکھو کہ خوشی میں دوسروں کا سکون بھی شامل ہونا چاہیے۔‘

یہ سنتے ہی عدالت کے کمرے میں موجود سب لوگ مسکرا اٹھے جج کیپریو کے اندازپر ہنس دیے۔ ماحول ہلکا پھلکا اور خوشگوار بن گیا، اور وہ لڑکی شکریہ ادا کرتی ہوئی باہر نکلی۔

یہ تھا وہ لمحہ جب ایک چھوٹا سا قصور سزا کے بجائے نصیحت میں بدل گیا، اور جج کیپریو نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ انصاف صرف قانون کا نام نہیں، بلکہ انسانیت کا بھی ہے۔

10- ایک خاتون پر پارکنگ کے چارجز

ایک خاتون پر پارکنگ کے 13 چارجز تھے، جب وہ عدالت میں حاضر ہوئیں جج کیپریو کے سوالات اور جوابات ایک دلچسپ مکالمہ تھا۔ جج صاحب نے اس کی گاڑی پر بوٹ لگا دیا جائے کا آرڈر دینے کا بتایا۔ وہ عورت اپنے 4 بچوں کے ساتھ زندگی کی مشکلات جھیل رہی تھی جس کا ذکر اس نے عدالت میں کیا اور بتایا کہ وہ سارا دن کام کرکے بچوں کی ذمہ داریاں نبھا کر تھک جاتی ہے اور کار غلط پارک کرتی ہے اور ہمت نہیں ہوتی اس میں سارے دن کی مشقت کے بعد۔ کچھ دیر سوال جواب کا سلسلہ چلتا رہا، عورت اپنے وقت،تنہا ماں، بچوں کی ذکہ داری اور کام اور ملازمت کا بتاتی رہی-

جج کیپریو نے بہت خوبصورت انداز میں ان کی تمام بہترین کاوشوں کو جو وہ تنہا بچوں کو پالنے کی جدوجہد میں کر رہی تھیں بہت سراہا اور کہا کہ آپ بہت شاندار حوصلے سے اپنے بچوں کی تنہا پرورش کر رہی ہیں لیکن ایک طرف آپ اچھا کر رہی ہیں اور دوسری طرف قانون کی خلاف ورزی بھی، تو یہ آپ کو مزید دباؤ میں مبتلا کررہا ہے ریاست اور قانون پرعمل کرنا آپ پر لازم ہے اورکیونکہ وہ خاتون ان چارجز کو نہیں بھر سکتی تھیں لہٰذا انہوں نے کچھ پیسے آئے ہوئے اکاؤنٹس میں سے کچھ ہر ہفتے اور کچھ معاف کرکے اس خاتون کے لئے بےحد آسانی کی اور کہا کتنی بھی تھکن ہوآپ نے خود کو کہنا ہے میں گاڑی پارکنگ میں ہی پارک کروں گی اور تھکن کا احساس اس وقت رد کریں گی- وہ خاتون خوش ہوکر شکریہ ادا کرتی ہوئی گئیں اور تمام لوگ جو عدالت میں شریک تھے انکی اس نرم دلی اور بہترین فیصلے سے خوش ہوگئے۔

انسانیت کی جیت دلوں پر راج

جج فرینک کیپریو نے اپنی زندگی سے یہ ثابت کیا کہ عدالت صرف سزا دینے کا نام نہیں بلکہ انسانیت، رحمدلی اور امید بانٹنے کا مقام بھی ہے۔ وہ دنیا کو یہ سبق دے گئے کہ انصاف کے ساتھ اگر محبت اور مزاح شامل ہو جائے تو دل بھی جیتے جا سکتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ فرینک کیپریو صرف ایک جج نہیں تھے بلکہ وہ ایک مسکراہٹ، ایک امید اور ایک ایسا دل تھے جو ہر انسان کے دکھ کو محسوس کرتا تھا۔ ان کے فیصلوں میں قانون کی سختی کم اور انسانیت، نرمی اور پیار زیادہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عدالت کے کمرے سے نکل کر کروڑوں دلوں میں جا بسے۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن ان کی یادیں، ان کی باتیں اور ان کے فیصلے ہمیشہ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرتے رہیں گے۔

Similar Posts