روسی صدر نے یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے شرائط رکھ دیں

0 minutes, 0 seconds Read

روس کے صدرولادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں جنگ بندی کے لیے اپنی شرائط پیش کردی ہیں جن میں اہم مطالبہ یہ ہے کہ یوکرین مشرقی صوبہ ڈونباس سے دستبردار ہو جائے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق روسی صدر پیوٹن چاہتے ہیں کہ یوکرین مشرقی سرحدی شہر ڈونباس سے دستبردار ہو جائے اور نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ترک کردے۔

کریملن زرائع کے مطابق روسی صدر چاہتے ہیں کہ مشرقی سرحد سے نیٹو افواج کو ہٹا دیا جائے، اس کے عوض روس کچھ علاقوں سے پیچھے ہٹنے پر تیار ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کے ساتھ ممکنہ امن معاہدے کے لیے کڑی شرائط رکھتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یوکرین مشرقی علاقے ڈونباس کو مکمل طور پر چھوڑ دے، نیٹو میں شمولیت کے عزائم ترک کرے، مکمل غیر جانبداری اختیار کرے، اور اپنی سرزمین پر مغربی افواج کی موجودگی کو روک دے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کے ساتھ کسی ممکنہ امن معاہدے کے لیے اپنی شرائط میں واضح کی ہیں جن میں یوکرین کو مشرقی ڈونباس کے مکمل علاقے سے دستبردار ہونا ہوگا، نیٹو میں شمولیت کی خواہش ترک کرنا ہوگی، غیر جانبدار ملک بننا ہوگا اور مغربی افواج کو اپنی سرزمین پر داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی ہوگی۔

رائٹرز نے زرائع کا حوالہ دیتے ہوئےکہا ہے کہ پیوٹن نے یہ مطالبات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے الاسکا میں حالیہ سربراہی ملاقات کے دوران پیش کیے۔ یہ ملاقات گزشتہ چار سالوں میں امریکا اور روس کے درمیان پہلا باضابطہ اجلاس تھا، جو تین گھنٹے تک جاری رہا۔

ملاقات کے بعد پیوٹن نے ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہو کر امید ظاہر کی کہ یہ بات چیت یوکرین میں امن کی راہ ہموار کرے گی، تاہم دونوں رہنماؤں نے تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

یہ رپورٹ پیوٹن کے امن کی تجویز سے متعلق اب تک کی سب سے تفصیلی روسی مؤقف پر مبنی ہے، جس میں اس جنگ کے خاتمے کے امکانات زیرِ بحث آئے ہیں جو اب تک لاکھوں افراد کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کا سبب بن چکی ہے۔

رائٹرز کے زرائع کے مطابق پیوٹن نے جون 2024 میں پیش کی گئی اپنی ابتدائی علاقائی شرائط میں جزوی نرمی کی ہے۔ اس وقت روسی مطالبہ تھا کہ یوکرین چار مکمل صوبوں ڈونیتسک، لوہانسک، خیرسون اور زاپوریزژیا سے دستبردار ہو،ان میں سے ڈونیتسک اور لوہانسک کو ملا کر ڈونباس کا خطہ بنتا ہے۔

یوکرین نے ان شرائط کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے انہیں ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیا تھا۔

اب نئی تجویز کے مطابق پیوٹن نے اصرار برقرار رکھا ہے کہ یوکرین ڈونباس کے ان علاقوں سے بھی مکمل طور پر نکل جائے جو اب بھی اس کے کنٹرول میں ہیں۔ بدلے میں، روس موجودہ محاذی علاقوں یعنی زاپوریزژیا اور خیرسون پر مزید پیش قدمی روکنے پر آمادہ ہو گا۔

امریکی تخمینوں اور کھلی ذرائع کی معلومات کے مطابق، روس اس وقت ڈونباس کے تقریباً 88 فیصد اور زاپوریزژیا و خیرسون کے 73 فیصد علاقے پر قابض ہے۔

ذرائع کے مطابق روس چھوٹے علاقوں خارکیف، سومی، اور ڈنیپروپیٹروسک سے بھی پیچھے ہٹنے پر غور کر رہا ہے۔ لیکن پیوٹن کی یہ شرط اب بھی برقرار ہے کہ یوکرین نیٹو میں شامل نہ ہو اور مغربی افواج ملک میں داخل نہ ہوں۔

یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ان شرائط کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈونباس پر روسی قبضے کو قبول کرنا قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا، ”صرف مشرق سے انخلاء کی بات کرنا ہماری بقا کے خلاف ہے، کیونکہ یہی وہ دفاعی لائنز ہیں جو روسی پیش قدمی کو روکے ہوئے ہیں۔“

زیلنسکی کے مطابق نیٹو میں شمولیت یوکرین کے آئین کا حصہ ہے اور روس کو اس پر اثرانداز ہونے کا کوئی حق نہیں۔

Similar Posts