امریکا نے فلسطینی رہنماؤں کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت سے روک دیا

0 minutes, 0 seconds Read

امریکا نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قبل فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ویزے منسوخ کر دیے۔

امریکا نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ ماہ ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے نمائندوں کو ویزا نہیں دے گا۔

غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے ارکان کے ویزے منسوخ یا مسترد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جو لوگ اقوام متحدہ کے مستقل مشن میں شامل ہیں انہیں ویزہ چھوٹ مل جائے گی لیکن صدر محمود عباس اگلے ماہ نیویارک میں ہونے والی جنرل اسمبلی میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے کہ پی ایل او اور پی اے کو ان کے وعدوں پر عمل نہ کرنے اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچانے پر جواب دہ ٹھہرایا جائے۔

محکمہ خارجہ نے فلسطینی قیادت پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت اور عالمی عدالتِ انصاف کا سہارا لے کر ’قانونی جنگ‘ کر رہی ہے اور یہ کہ فلسطینی اتھارٹی کو فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرانے کی کوششیں ترک کرنی چاہئیں۔

اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ امریکی فیصلے کی تفصیلات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ پابندیاں ان کے وفد پر کس حد تک لاگو ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ ”ہم اس کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور مناسب ردعمل دیں گے،“ صدر عباس کے دفتر کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ موصول نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ جولائی میں امریکا نے فلسطینی اتھارٹی اور کے بعض عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس دوران جب یورپ سمیت دیگر مغربی ممالک فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت میں پیش رفت کر رہے ہیں، امریکہ کا یہ سخت رویہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ”یہ ہمارے قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ ہم فلسطینی اتھارٹی اور کے بعض عہدیداروں کو ان کے وعدوں کی خلاف ورزی اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچانے پر جوابدہ ٹھہرائیں۔“

دوسری جانب اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈیون سار نے ایکس پر اپنے بیان میں امریکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’اس جرات مندانہ اقدام اور ایک بار پھر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے‘ پر ٹرمپ انتظامیہ کے مشکور ہیں۔

واضح رہے کہ فرانسیسی صدر نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ فرانس جنرل اسمبلی اجلاس سے ایک روز قبل ہونے والے خصوصی اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔

امریکا پہلے بھی ویزے مسترد کر چکا ہے۔ 1988 میں پی ایل او کے اس وقت کے سربراہ یاسر عرفات کو اقوام متحدہ کے سرکاری عوامل پر نیویارک آنے کے لیے ویزا دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے 2013 میں [سوڈان کے صدر] عمر البشیر کے لیے ویزا دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مطلوب تھے۔

Similar Posts