مسلم مخالف جذبات ابھارنے کا الزام: بھارتی خاتون اینکر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم

بھارت کی ایک عدالت نے مشہور ٹی وی اینکر اور ٹی وی چینل ’آج تک‘ کی مینیجنگ ایڈیٹر ’انجنا اوم کشیپ‘ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔

یہ حکم ریٹائرڈ پولیس افسر ’امیتابھ ٹھاکر‘ کی جانب سے دائر شکایت پر سنایا گیا، جس میں الزام لگایا گیا کہ انجنا کشیپ کے پروگرام نے مذہبی منافرت کو ہوا دی اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

یہ مقدمہ انجنا کشیپ کے شو ’بلیک اینڈ وائٹ‘ کی ایک قسط پر مبنی ہے، جو 14 اگست 2025 کو نشر ہوئی تھی۔ اس پروگرام کا عنوان تھا، ’بھارت کی تقسیم کا مقصد پورا کیوں نہیں ہوا؟‘۔ شکایت میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس پروگرام میں بھارتی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں ایک ’ناپسندیدہ بوجھ’ کے طور پر پیش کیا گیا۔

امیتابھ ٹھاکر نے عدالت کو بتایا کہ پروگرام میں سوال اٹھایا گیا کہ جب تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی تو بھارت میں موجود چار کروڑ مسلمانوں میں سے صرف 96 لاکھ ہی پاکستان کیوں گئے اور باقی بھارت میں کیوں رہ گئے؟ شکایت کے مطابق اس طرزِ گفتگو اور اعدادوشمار کی پیشکش عوام کو اس سوچ کی طرف مائل کرنے کی کوشش ہے کہ بھارت میں موجود مسلمان کسی ’تاریخی غلطی‘ کے باعث یہاں ہیں۔

شکایت میں مزید کہا گیا کہ پروگرام کے دوران پیش کیے گئے بیانات ’زہراگلتے ہوئے، خطرناک اور اشتعال انگیز‘ ہیں، جو مذہبی منافرت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ امیتابھ ٹھاکر نے مؤقف اپنایا کہ یہ طرزِ صحافت نہ صرف قومی یکجہتی کے خلاف ہے بلکہ تاریخی اعتبار سے بھی غلط ہے، کیونکہ بانیانِ بھارت نے اُس وقت ہی یہ طے کیا تھا کہ ملک ایک سیکولر ریاست ہوگا، نہ کہ کسی ایک مذہب کا۔


AAJ News Whatsapp

عدالت میں دائر شکایت میں انجنا کشیپ کے خلاف ان دفعات کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی ہے کہ مذہب، نسل، جائے پیدائش یا زبان کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینا اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا، اور ایسے الزامات یا دعوے جو قومی یکجہتی کے خلاف ہوں اور ایسے بیانات جو عوامی بدامنی یا شرانگیزی کو جنم دیں۔

امیتابھ ٹھاکر نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اس معاملے پر پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی تھی لیکن مبینہ دباؤ کی وجہ سے پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی، جس کے بعد وہ براہِ راست عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔

انجنا کشیپ، جو ’آج تک‘ نیوز چینل سے وابستہ ہیں، ماضی میں دوردرشن، زی نیوز اور نیوز 24 جیسے اداروں میں بھی کام کر چکی ہیں۔ تاہم اس تازہ تنازعے نے ان کی صحافتی سرگرمیوں کو ایک نئی قانونی اور عوامی بحث میں لا کھڑا کیا ہے۔

Similar Posts