نیپال میں معمولاتِ زندگی بحال: عارضی سیٹ اپ سے قبل فوجی سربراہ کی ملاقات

نیپال میں حکومتی خاتمے کے بعد معمولاتِ زندگی بحال ہو گئے ہیں، دارالحکومت کھٹمنڈو کا انتظام عارضی طور پر فوج کے پاس ہے اور عبوری حکومت کے لیے سابق چیف جسٹس سوشیلا کرکی کو وزیرِاعظم نامزد کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔

کٹھمنڈو میں جمعے کے روز کرفیو میں نرمی کے بعد دکانیں کھل گئیں، سڑکوں پر گاڑیاں چلنے لگیں اور پولیس نے رائفلز کے بجائے ڈنڈوں کے ساتھ گشت شروع کر دیا۔ تاہم کچھ سڑکیں اب بھی بند ہیں اور فوج کی موجودگی جزوی طور پر برقرار ہے۔

ملک کے صدر رام چندرا پاؤڈل اور فوج کے سربراہ جنرل اشوک راج سگدل چتری نے جمعے کو سوشیلا کرکی سے ملاقات کہ تاکہ سیاسی بحران کا حل نکالا جا سکے۔ رپورٹس کے مطابق کرکی کو عبوری وزیرِاعظم نامزد کیے جانے کا باضابطہ اعلان متوقع ہے۔

واضح رہے کہ نیپال میں کرپشن کے خلاف رواں ہفتے عوام نے شدید احتجاج کیا تھا جس پر قابو پانے کے لیے حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کر دی تھی۔


AAJ News Whatsapp

8 ستمبر کو ’جین زی‘ نے سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف باقاعدہ ایک تحریک چلائی جو کھٹمنڈو میں ایک قومی یادگار سے شروع ہوئی، جسے نوجوانوں کی تنظیم ہامی نیپال نے منظم کیا۔

جین زی کی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑے اور پرتشدد احتجاج کی صورت اختیار کرگئی جسے روکنے کے لیے پولیس نے 8 ستمبر کو طاقت کا مظاہرہ کیا اور اس دوران 21 مظاہرین مارے گئے۔

کھٹمنڈو میں مظاہرین نے پارلیمنٹ و پولیس اسٹیشن سمیت کئی سرکاری دفاتر کو نقصان پہنچایا، ان واقعات کے بعد اسی روز وزیراعظم کے پی شرما اولی مستعفی ہوئے اور فوج نے کرفیو نافذ کر دیا۔

اسی دوران نیپال کے سابق وزیراعظم جھالا ناتھ کھنل کی اہلیہ، جنہیں 9 ستمبر کو نیپال میں پرتشدد مظاہروں کے دوران مظاہرین نے گھرکو آگ لگا کر جلا دیا تھا، تاحال اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔

الجزیرہ کے مطابق پرتشدد مظاہروں کے دوران 21 مظاہرین، 9 قیدی، 3 پولیس اہلکار اور 18 دیگر افراد سمیت 51 افراد ہلاک جبکہ 1,300 سے زائد زخمی ہوئے۔ ملک بھر کی جیلوں سے 13,500 قیدی فرار ہوئے جن میں سے 12,533 تاحال مفرور ہیں، کچھ بھارت کی سرحد پر گرفتار کیے گئے۔

ماہرین کے مطابق یہاں ایک سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ اگر کرکی رکنِ پارلیمان نہیں تو کیا وہ عبوری وزیرِ اعظم بن سکتی ہیں؟ اس معاملے نے پارلیمان کی ممکنہ تحلیل یا آئین میں تبدیلی کی بحث کو جنم دے دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیپال ایک طویل سیاسی غیر یقینی دور میں داخل ہو چکا ہے۔ نیپال میں یہ پیش رفت اس خطے میں تازہ ترین سیاسی بحران ہے، جہاں اس سے قبل سری لنکا، میانمار اور بنگلہ دیش میں حکومت مخالف تحریکیں سامنے آ چکی ہیں۔

Similar Posts