قطر اور امریکہ کے درمیان دفاعی تعاون کے ایک جامع معاہدے کو حتمی شکل دیے جانے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ دونوں ممالک طویل عرصے سے اس معاہدے پر کام کر رہے تھے، لیکن حالیہ اسرائیلی حملے کے بعد اس عمل میں تیزی آ گئی ہے۔
رائٹرز کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے تل ابیب سے دوحہ روانہ ہوتے ہوئے کہا، ”ہم قطر کے ساتھ قریبی شراکت داری رکھتے ہیں۔ دفاعی تعاون کا معاہدہ تقریباً مکمل ہے۔“
یاد رہے کہ قطر اور امریکا کے درمیان دفاعی تعاون کا آغاز 1992 میں ہوا، جب دونوں ممالک نے ایک باضابطہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کی بنیاد پر امریکا کو قطر میں فوجی اڈے، خاص طور پر العدید ایئربیس پر موجودگی کی اجازت ملی۔
2002 میں اس معاہدے کو مزید وسعت دی گئی اور یہ بیس اب مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کا سب سے بڑا اڈہ ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق مئی 2025 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ قطر کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 1.2 کھرب ڈالر مالیت کے معاشی و دفاعی معاہدے طے پائے، جن میں 210 بوئنگ طیاروں کی خریداری، MQ-9B ڈرونز اور Raytheon کے جدید اینٹی ڈرون سسٹمز کی فروخت، العدید ایئر بیس سے متعلق دفاعی سرمایہ کاری اور جدید کوانٹم ٹیکنالوجی میں مشترکہ منصوبہ شامل تھے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب گزشتہ ہفتے اسرائیل نے دوحہ میں حماس کے سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنایا، جس پر عالمی سطح پر شدید ردعمل آیا۔ قطر جو امریکا کا قریبی اتحادی ہے، اس حملے کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دے چکا ہے۔
رائٹرز کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ایک بریفنگ میں کہا، ”یہ (اسرائیلی) حملہ اسٹریٹیجک دفاعی معاہدے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ بات نئی نہیں، مگر اب یہ عمل تیزی سے مکمل ہو رہا ہے۔“
روبیو نے دوحہ میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات کی، جس میں دفاعی تعاون، غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سمیت اہم معاملات پر بات چیت ہوئی۔
قطر کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت اس کی اولین ترجیح اپنی خودمختاری کا تحفظ ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، دیگر معاملات پر توجہ دینا ممکن نہیں۔
قطر کئی برسوں سے مصر اور امریکا کے ساتھ مل کر اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم، حالیہ حملے کے بعد اس کردار پر دباؤ بڑھا ہے۔
مارکو روبیو نے کہا، ”اگر دنیا میں کوئی ملک ہے جو اس تنازع میں ثالثی کا مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ قطر ہی ہے۔ لیکن وقت بہت کم رہ گیا ہے۔“
دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر اس پر کوئی حملہ ہوا تو امریکا اس کا دفاع کرے گا۔
انہوں نے واضح کیا تھا کہ انہیں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حملے سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ ٹرمپ نے اس حملے کو ”یکطرفہ اور غیر ضروری“ اقدام قرار دیا تھا جو نہ امریکا اور نہ ہی اسرائیل کے مفاد میں تھا۔
قطری حکومت نے اسرائیلی حملے کو ”بزدلانہ اور غداری پر مبنی“ قرار دیا، تاہم یہ بھی کہا کہ یہ اس کے ثالثی کے کردار کو متاثر نہیں کرے گا۔
ادھر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پیر کے روز مارکو روبیو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں خبردار کیا کہ ”ہم حماس کے رہنماؤں کو جہاں کہیں بھی ہوں، نشانہ بنائیں گے۔“
دوسری طرف، اسرائیلی حملے کے بعد عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان کی ایک سربراہی کانفرنس میں قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔