ایئر انڈیا حادثہ: ہلاک مسافروں کے لواحقین نے امریکی کمپنی پر مقدمہ کردیا

بھارتی فضائی کمپنی ایئرانڈیا کے طیارے کو تین ماہ قبل پیش آنے والے حادثے میں ہلاک مسافروں کے لواحقین نے مقدمہ درج کرادیا ہے، جس میں انہوں نے حادثے کا ذمہ دارامریکی کمپنیوں کو ٹھہرایا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ مقدمہ امریکا کی ریاست ڈیلویئر کی سپیریئر کورٹ میں دائر کیا گیا ہے، جس میں امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ اورہنی ویل کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ہنی ویل نے وہ فیول سوئچز تیار کیے تھے جن پر حادثے کی وجہ ہونے کا الزام ہے۔

مقدمہ درج کرانے والے چار درخواست گزاروں نے 2018 کی امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کی ایک سفارش کا حوالہ دیا ہے، جس میں بوئنگ کے کئی طیاروں میں فیول کٹ آف سوئچز کے لاکنگ میکنزم کی جانچ کا کہا گیا تھا تاہم بھارتی تحقیقات کے مطابق ایئر انڈیا نے یہ معائنہ نہیں کیا تھا۔

ایئر انڈیا کے طیارے کی تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ طیارے میں فیول سوئچز والا تھروٹل کنٹرول ماڈیول 2019 اور 2023 میں تبدیل کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا اور تمام لازمی حفاظتی ہدایات پر عمل کیا گیا تھا۔

تاہم، بوئنگ نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جبکہ امریکی کمپنی ’ہنی ویل‘ نے بھی فوری ردعمل نہیں دیا۔

طیارے کی کاک پٹ ریکارڈنگ کے مطابق، حادثے کے وقت پائلٹ نے انجنز کو جانے والے فیول کی فراہمی روک دی تھی۔ ادھر لواحقین کا کہنا ہے کہ سوئچز کا مقام ایسا تھا کہ وہ غلطی سے بھی دب سکتے تھے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے ڈیزائن کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔


AAJ News Whatsapp

بھارتی تحقیقاتی رپورٹ میں بوئنگ اور انجن بنانے والی کمپنی جی ای ایروسپیس کو ذمہ داری سے بری قرار دیا گیا ہے، لیکن کچھ متاثرہ خاندانوں نے کہا ہے کہ تفتیش کا زور زیادہ تر پائلٹس پر ڈالا گیا ہے۔

یہ امریکا میں دائر ہونے والا اس حادثے سے متعلق پہلا مقدمہ ہے۔ مقدمے میں چار ہلاک شدگان، کانتابین دھیرُبھائی پگھڈال، ناویا چِرگ پگھڈال، کوبربھائی پٹیل اور بابیبین پٹیل کے لیے معاوضے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے حادثے میں مجموعی طور پر 229 مسافر، 12 عملے کے ارکان اور 19 زمینی افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ ایک مسافر زندہ بچا تھا۔

زیادہ تر حادثات کئی وجوہات کی وجہ سے پیش آتے ہیں، لیکن قانونی ماہرین کے مطابق متاثرہ خاندانوں کے وکلا زیادہ تر مینوفیکچررز (جیسے بوئنگ یا ہنی ویل) پر مقدمہ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایئرلائنز پر قانونی طور پر ذمہ داری کی کچھ حدیں مقرر ہوتی ہیں، لیکن مینوفیکچررز پر نہیں۔ اس کے علاوہ، اگر کیس امریکا میں چلایا جائے تو مدعی کو زیادہ معاوضہ ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ امریکی عدالتیں متاثرین کے لیے نسبتاً زیادہ نرم رویہ رکھتی ہیں۔

Similar Posts