سماجی روایت اور جدید سماجی تقاضے

جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان میں ’کزن میرج‘ (خاندان میں شادی) ایک ایسی پرانی روایت ہے، جو نسل در نسل جاری ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بن چکی ہے۔

بہت سے خاندان میں اسے سماجی اقدار کے ساتھ جوڑ کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ خاندان اور رشتوں کو جوڑے رکھنے کے نام پر اسے ضروری گردانا جاتا ہے۔ یعنی کہ اس روایت کو نہ صرف خاندانی اتحاد و یگانگت کے ضامن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، بلکہ بعضے خاندانوں میں یہ عقیدہ جڑ پکڑ چکا ہے کہ خاندان سے باہر شادی کرنا نہ صرف غیرت کے خلاف ہے، بلکہ مذہبی و اخلاقی قدروں سے انحراف بھی ہے۔

ایسے تصورات اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ خاندان سے باہر شادی کرنے والی خواتین کو ’’گناہ‘‘ بغاوت اور غیرت کے دائرے سے باہر سمجھا جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کزن میرج محض ایک معصوم روایت ہے یا اس کے پیچھے طاقت، جائیداد اور سماجی رسوخ کے تحفظ جیسے محرکات بھی پوشیدہ ہیں؟ اور سب سے اہم یہ کہ اس روایت کے اصل بوجھ تلے کون سا طبقہ کچلا جا رہا ہے؟ جواب واضح ہے۔ عورت! اس دباؤ کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر عورت ہوتی ہے، کیوں کہ اس کی ذاتی خواہشات، جسمانی صحت، نفسیاتی سکون اور سماجی کردار کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

کزن میرج کا رواج جنوبی ایشیا میں محض ایک خاندانی رسم نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی سماجی و معاشی محرکات کارفرما ہیں۔ جیسے کہ زمین اور جائیداد کو خاندان میں رکھنے کے لیے کزن میرج کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس ہی طرح عزت اور غیرت کے تصورات عورت کی شادی کو خاندان کے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ رشتہ داریوں کو مضبوط کرنے کا بیانیہ دراصل خاندان کے مردوں کی طاقت کو محفوظ کرنے کا ذریعہ ہے۔

پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں مشترکہ خاندانی نظام اب بھی غالب ہے، وہاں کزن میرج کو عورت کے لیے تقدیر مان لیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تقدیر کے نتیجے میں عورت کی زندگی اکثر ذہنی دباؤ، جسمانی بیماریوں اور نفسیاتی الجھنوں میں الجھ جاتی ہے۔

یہ کہنا درست نہیں کہ ہر کزن میرج ناکام یا نقصان دہ نہیں ہوتی۔ بعض اوقات قریبی رشتہ داروں کے درمیان رشتہ داری واقعتاً خاندان کو قریب لاتی ہے۔ لڑکی کے لیے اجنبی ماحول میں جانے کے بہ جائے جان پہچان والے ماحول میں رہنا آسان لگتا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ بیٹی کو ایسے ماحول میں بھیجنے سے اس کی حفاظت اور دیکھ بھال بہتر ہوگی، لیکن آج کل کے نفسانفسی کے دور میں یہ مثبت پہلو کبھی کبھی سطحی نظر آنے لگتا ہے اور اصل حقیقت سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ بنتے ہیں، جب آئے دن یہ خبریں ملیں کہ سگی خالہ نے بیٹیوں کے ساتھ مل نے بہو (سگی بھانجی) کی زندگی اجیرن کردی، یا چچا نے بیٹے کے ساتھ مل کربہو (سگی بھتیجی) کو نقصان پہنچایا وغیرہ وغیرہ۔ کیوں کہ ان تمام واقعات میں عملی طور پر زیادہ تر کیسوں میں اس روایت کے نقصان عورت ہی اٹھاتی ہے۔

’کزن میرج‘ کے نتیجے میں عورت پر خاندانی دباؤ دُہرا ہو جاتا ہے۔ ایک طرف اسے ازدواجی تعلقات نبھانے ہوتے ہیں اور دوسری طرف خاندانی جھگڑوں یا جائیداد کے تنازعات میں بھی گھسیٹ لیا جاتا ہے۔ اگر رشتہ کام یاب نہ ہو تو خاندان کے درمیان تعلقات خراب ہو جاتے ہیں، جس کا زیادہ تر الزام عورت پر ڈالا جاتا ہے۔ لڑکی سے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق اکثر چھین لیا جاتا ہے، جس کے باعث وہ ذہنی دباؤ اور احساس محرومی کا شکار ہو جاتی ہے۔

دوسری طرف ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سائنسی تحقیق سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ’کزن میرج‘ سے بچوں میں جینیاتی بیماریوں کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ دل سے لے کر اعصابی اور خون کی مختلف بیماریاں اور دیگر موروثی امراض اس کی مثال ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ’کزن میرج‘ عورت کو اکثر ایک ایسے دائرے میں قید کر دیتی ہے، جہاں اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا۔ اگر شوہر دوسری شادی کر لے تو عورت کو خاندان سے باہر نکالنے یا اس کی حیثیت کم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ طلاق کی صورت میں عورت کے لیے خاندان کے اندر اور باہر دونوں جگہ مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات عورت کو یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ وہ خاندان کے وقار اور اتحاد کی محافظ ہے، اس لیے اسے ہر حال میں قربانی دینی ہوگی۔

شادی کے رشتے میں اصل زور عورت اور مرد کی رضا، ان کی مرضی اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر ہے۔ بہ حیثیت معاشرہ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وقت بدل رہا ہے، معاشرے ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور خواتین تعلیم اور روزگار کے میدان میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ ایسے میں کزن میرج جیسی روایات پر سوال اٹھنا فطری ہے۔ خواتین آج اپنی پسند اور اپنی شخصیت کے مطابق شریکِ حیات چننا چاہتی ہیں۔ صحت کے اعتبار سے بھی دنیا بھر کے طبی ماہرین نے کزن میرج کے نقصانات پر تحقیق کر کے خبردار کیا ہے۔ عالمی سطح پر عورت کو خود مختاری دینے پر زور دیا جا رہا ہے، تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے۔ تو پھر ہمارے معاشرے میں عورت کی خاندان میں ہی شادی ہونا کیوں کام یابی کی ضامن سمجھی جاتی ہے؟

’کزن میرج‘ کے تناظر میں عورت ایک ایسے پُل کی مانند ہے جو روایت اور جدیدیت کے درمیان ڈول رہا ہے، کیوں کہ روایت کا دباؤ اسے قید رکھتا ہے، جب کہ جدید تعلیم، شعور اور دنیاوی حقائق اسے آزادی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس ڈولتی ہوئی حیثیت میں عورت سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہی ہے۔ اس کی ذات کو خاندان کی عزت کا استعارہ بنا دیا گیا ہے، لیکن اس کے حقوق اور خوشی کو ہمیشہ پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔

کزن میرج کے مسئلے کا حل صرف تنقید میں نہیں، بلکہ عملی اقدامات میں ہے۔ خواتین اور مرد دونوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ شادی کا مقصد خاندان کی جائیداد یا غیرت کو بچانا نہیں، بلکہ دو افراد کی خوشگوار زندگی ہے۔ حکومت کو ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو شادی جیسے اہم بندھن میں خواتین کی رضا مندی اور ان کی مرضی کو مزید تحفظ فراہم کریں۔ صحت کے حوالے سے ’کزن میرج‘ کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کی آگاہی مہم چلائی جائے، تاکہ لوگ اپنی آئندہ نسل کو بیماریوں سے بچا سکیں۔ خاندان کے بزرگوں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جیسے شادی کے لیے مرد کی خوشی اور اس کی مرضی کو نظرانداز کرنا دراصل خاندان کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے بعینہٖ یہ چیز ایک لڑکی کے لیے بھی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ’کزن میرج‘ ایک ایسی روایت ہے، جو بہ ظاہر خاندان کو جوڑنے کے لیے اپنائی جاتی ہے، لیکن درحقیقت یہ عورت کو ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی مسائل کی بھٹی میں جھونک دیتی ہے۔ ہم خاندانی رسم و روایات کے باعث اس پر بات کرنے سے گھبراتے ہیں، لیکن جدید دور کے تقاضے ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ عورت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق دیے جائیں اسے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم روایت اور جدیدیت کے درمیان عورت کو معلق رکھنے کے بہ جائے اس کے قدموں کو مضبوط کریں، تاکہ اپنی زندگی کے فیصلے میں اُسے بھی اختیار مل سکے۔

Similar Posts