اخبار جمہوری نظام کا ایک بنیادی ستون ہے۔ امریکا کی سپریم کورٹ کے جج اور جنگ مخالف تحریک کے معروف کارکن Oliver Wendell Homesنے اخبار کے ادارہ کو Free Market Place of Ideas قرار دیا تھا۔ مفکرین نے اس کی تعریف کچھ یوں کی ہے: ’’ The marketplace of ideas is a concept that suggests that the best ideas will ultimately prevail in a free and open competition for public acceptance. This idea is deeply rooted in the belief that individuals should have the freedom to express their thoughts and opinions, leading to a dynamic exchange of ideas. It underscores the importance of free speech and a free press as essential components for democracy, allowing diverse viewpoints to coexist and be tested against one another.
ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں اخبار کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ کمپنی کے منحرف افسروں نے اپنی شکایات لندن کی حکومت تک پہنچانے کے لیے کلکتہ میں اخبار نکالنے کے لیے پرنٹنگ پریس قائم کرنے کی کوشش کی مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکاروں نے اس کوشش کو ناکام بنادیا تھا مگر کمپنی کے ایک اور منحرف جیمس اگسٹ ہکی نے 1780 میں انگریزی کا اخبار Bangal Gazette شایع کیا جو ہکی گزٹ کے نام سے مشہور ہوا۔
ہکی کا یہ اخبار کمپنی کی استعماریت کا شکار ہوا۔ برصغیر کے پہلے ایڈیٹر کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ کئی اور لوگوں نے انگریزی کے اخبارات شایع کیے۔ پھر 27 مارچ 1822 کو اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما کلکتہ سے شایع کیا، یوں اردو صحافت کا آغاز ہوا۔ اس کے ساتھ ہندی، فارسی، بنگالی، تیلگو اور دیگر زبانوں میں بھی اخبارات شایع ہونے لگے۔ کمپنی کی حکومت کے افسروں نے جب محسوس کیا کہ مقامی زبانوں کے اخبارات تقویت پا رہے ہیں تو پھر حکومت نے 1822 میں اخبارات کی اشاعت کے لیے پرمٹ کے اجراء اور اخبار کو سنسر کرنے کا قانون نافذ کیا۔
معروف سماجی رہنما راجہ رام موہن رائے نے اس قانون کے خلاف قانونی لڑائی میں شکست کے بعد اخبارات کو بند کرنے کا تاریخی اعلان کیا۔ 1857کی جنگ آزاد ی کی ناکامی کے بعد انگریز سرکاری نے اردو کے اخبار دہلی اردو کے ایڈیٹر مولانا باقر کو پھانسی کی سزا دیدی۔ مولانا باقر کو سیکڑوں باغیوں کے ساتھ گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ انگریز حکومت کی انتظامی، عدالتی اور تعلیمی اصلاحات کے ہندوستانی معاشرے پرگہرے اثرات برآمد ہوئے۔ ہندوستان میں پہلی بار متوسط اور مزدور طبقہ پیدا ہوا، یوں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی کانگریس اور جمعیت علمائے ہند نے آزادی کی کئی تحریکیں چلائیں۔ ان تحریکوں میں اردو، ہندی، بنگالی اور انگریزی زبان میں شایع ہونے والے اخبارات نے اہم کردار ادا کیا۔
اس دوران بہت سے اخبارات کے مدیروں کو سزائیں ہوئیں۔ کئی اخبارات بند کر دیے گئے۔ مولانا حسرت موہانی کو اخبار اردو معلیٰ میں ایک مضمون کی اشاعت پر 4 سال قید کی سزا ہوئی اور جرمانہ ادا نہ کرنے پر ان کا قیمتی کتب خانہ نیلام بھی ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اخبارات کی ہیت ہی تبدیل ہوئی۔ اس سرکولیشن کے ساتھ اشتہارات بھی ایک نیا ذریعہ بن گئے۔ پہلے انگریزی اخبارات میں ایڈیٹرکا ادارہ قائم ہوا۔ اردو اور ہندی کے اخبارات میں بھی تبدیلیاں ہوئیں۔ اب ایڈیٹر کا سیاسی رہنما، شاعر، مقرر اور ادیب ہونا ضروری نہ رہا۔ بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے ترجمان اخبار روزنامہ ڈان کا پہلا ایڈیٹر ایک ہندوستانی، عیسائی اور مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے طریقہ کے پیروکار رہنما پوتھن جوزف کو مقررکیا۔
معروف ترقی پسند سیاسی رہنما میاں افتخار الدین نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ (P.P.L) کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے پہلے روزنامہ پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز اور پھر ہفت روزہ لیل و نہار کا اجراء کیا۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کو روزنامہ پاکستان ٹائمز کا ایڈیٹر، چراغ حسن حسرت کو روزنامہ امروز اور مارکسٹ دانشور سبط حسن کو ہفت روزہ لیل و نہار کا ایڈیٹر مقررکیا گیا۔
انھوں نے اپنے ادارہ میں تمام ایڈیٹرز کو مکمل اختیارات دیے، یوں پی پی ایل میں ایڈیٹر کا ادارہ مستحکم رہا۔ روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور لیل و نہار کے 50ء اور 60ء کی دہائیوں میں شایع ہونے والے اداریوں کے تجزیے سے ثابت ہوتا ہے کہ ان اداریوں میں نئی ریاست کو ایک جدید سیکولر جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے لیے جو نکات اٹھائے جاتے تھے ان میں بڑے صوبے کے عوام کے احساس محرومی، مظلوم طبقات کی جانبدار اور غیر جانبدار آزاد خارجہ پالیسی جیسے موضوعات پر رائے دی گئی تھی۔ اس وقت کے حکمراں اداریوں اور ان اخبارات میں شایع ہونے والے آرٹیکلزکے مندرجات پر توجہ دیتے تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا اور بعد میں ملک کو درپیش ہونے والے مسائل رونما نہ ہوتے۔
اسی طرح بنگالی زبان میں شایع ہونے والے اخبار دینک پاکستان کے اداریوں نے بھی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے اخبارات نے جنرل ایوب خان کی عائد کردہ پابندیوں کے باوجود عوام کو اطلاعات فراہم کرنے کا حق بھی کسی حد تک ادا کیا۔
1970کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے بحران کے خاتمے کے لیے اخبارات کی یہ رائے تھی کہ عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ روزنامہ آزاد، ہفت روزہ لیل و نہار اور ہفت روزہ آؤٹ لک میں شایع ہونے والے اداریوں کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اس وقت کی حکومت ان اداریوں پر توجہ دیتی تو ملک نہ ٹوٹتا۔ اخبارات نے بھٹو حکومت کے دور میں عائد کردہ پابندیوں کا کسی حد تک مقابلہ کیا۔
جنرل ضیاء الحق کا دور صحافت کے لیے سیاہ دور تھا۔ اس دور میں صحافیوں کو کوڑے مارے گئے۔ پی ایف یو جے کی آزادئ صحافت کی تحریک میں سیکڑوں صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ نئی صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے میڈیا کی شکل کو تبدیل کیا۔ پہلے تو نجی شعبے میں نیوز چینلز کی اجازت مل گئی، یوں اب ہر شخص کو 24 گھنٹے خبریں ملنے لگیں، یوں ملک میں پڑھنے کا رجحان کم ہونے لگا۔ اساتذہ، دانشوروں اور پالیسی ساز اداروں کے اکابرین نے معاشرہ میں پیدا ہونے والے رجحان کو محسوس نہیں کیا۔ نوجوان اخبارات اور کتابوں سے دور ہونے لگے۔
برسرِ اقتدار آنے والی حکومتوں کے دانشوروں نے اس رجحان کو اپنی حکومتوں کے لیے بہتر جانا تھا مگر بعد میں نئی نسل کے سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے نقصانات سب کے سامنے آگئے۔بعض غیر منصفانہ فیصلوں سے اخباری صنعت میں بحران پیدا ہوا اور پھر تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں نے اخباری صنعت کو مفلوج کر کے رکھا جس کے نتیجے میں صحافیوں کی بے روزگاری میں اضافہ اور اخبارات کے بند ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔ صورتحال اتنی خراب ہوگئی کہ ایک اخبار نے اداریہ شایع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایڈیٹر کے ادارے کے خاتمے کا اعلان کردیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ڈالر کی قیمت بڑھنے اور بجلی کے نرخ میں غیر معمولی اضافے سے نیوز پرنٹ اور پرنٹنگ پریس کے کیمیکلز کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں اخبارات کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عام آدمی کے لیے اخبار خریدنا ممکن نہیں رہا مگر کراچی شہر کے امراء، متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی بستیوں میں کھانے کی مصنوعات کے آؤٹ لیٹ اور ہوٹلوں وغیرہ میں بڑھتے ہوئے رش کو دیکھ کر یہ تخمینہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ کم آمدنی سے عام آدمی کی ترجیحات میں تبدیلی کا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں اخبارات کی تقسیم سے 17 ڈسٹری بیوٹر ہوتے تھے جو اب 7 رہ گئے ہیں۔ اب کراچی میں اخبارات کی تقسیم کے 27 یونٹس ہیں۔ ایک زمانہ میں اخبار فروشوں کی تعداد 2 ہزار کے قریب تھی، اب ان کی تعداد 800 رہ گئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں مزید کمی آرہی ہے۔ اخبارات میں شایع ہونے والی معلومات معروضیت کے اصولوں کے مطابق ہوتی ہے۔ اس بناء پر اخبار کو سماجی ادارے کی حیثیت دی جاتی ہے۔
کوئی بھی سماجی ادارہ کمزور ہوجائے تو پورے سماج پر اس کے منفی نتائج برآمد ہونے پر تاریخ شاید ہے کہ 1971 میں جب مشرقی بنگال کے کرنافلی پیپر ملز سے نیوز پرنٹ کی درآمد بند ہوگئی تھی تو اخبارات شدید بحران کا شکار ہوگئے تھے، مگر 1972 میں پیپلز پارٹی کی نئی حکومت نے پولینڈ سے نیوز پرنٹ درآمد کیا اور رعایتی قیمت پر اخبارات کو فراہم کیا گیا اور حکومت نے قومیائے ہوئے بینکوں اور صنعتی اداروں کے اشتہارات کے والیوم کو بڑھا دیا تو یہ صنعت بحران سے نکل گئی۔ حکومت کا فرض ہے کہ اخباری صنعت کو بچانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر پالیسی وضح کی جائے۔ اخباری صنعت کو بچانا جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے۔