آج گارے، مٹی، کیچڑ کو سکھانے میں مدد کرنے آ چکا ہے، کسان سورج کی سنہری کرنوں کے جھرمٹ میں سوچ رہا ہوگا کہ ہم کئی پشتوں سے اس کچے پکے مکان میں ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ موجودہ نسل نے اور پچھلی کئی نسلوں نے باپ دادا اور ان کے باپ دادا نے اسی چار دیواری میں سکھ کی سانسیں لی تھیں، لیکن آج مجھ پر میرے خاندان پر اس موسمیاتی تبدیلی نے کیا غضب ڈھایا ہے کہ پورے گاؤں کے زیادہ تر مکانات ڈھے گئے اور ہم رل گئے۔ اوپر سے بارش لگاتار، بپھرے ہوئے دریاؤں کی روانی اور جسے اونچی اونچی لہروں میں بدلنے کا کام ہندوستان نے بڑی صفائی سے کیا۔
ادھر سرحد پار سے آبی جارحیت ہوئی ادھر اونچے اونچے آبی ریلے گاؤں دیہات کے مکانوں پر غضب ناک ہو کر ٹو ٹ پڑے، اسے ہول سا آنے لگا ہوگا۔ اسے اپنے مکان کے ایک ایک پتھر، ایک ایک اینٹ سے پیار تھا جسے سیلاب توڑ پھوڑ کر اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ اس کی زمین پر پھیلے کیچڑ، بدبودار پانی، اس کی خستگی اور بوسیدگی کا اشارہ دے رہی تھی کہ اس کی معیشت اس کی زمین پر سیلاب کے اثرات کب تک اتریں گے، کتنا نقصان ہو گیا، اس کا کون جائزہ لے گا۔ سوچ رہا ہوگا کہ حکومت مدد کو پہنچے گی۔ کتنا وقت لگے گا اسے معلوم نہیں۔ لیکن اسے یہ معلوم ہو گیا ہوگا کہ وزیر اعظم پاکستان نے نیویارک میں آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ آئی ایم ایف معیشت پر سیلاب کے اثرات کا بھی جائزہ لے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ دوسرے اقتصادی جائزہ مذاکرات جمعرات سے شروع ہو چکے ہیں۔ حکومت نے کہا ہے بیشتر اہداف پورے کرچکے ہیں۔ پہلے تکنیکی پھر پالیسی مذاکرات ہوں گے فی الحال آئی ایم ایف سربراہ نے سیلاب متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے مطالبے پر معیشت پر سیلاب کے اثرات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں جلد از جلد نقصانات کا اندازہ لگا کر کام شروع کر دیا جائے گا۔ کھیتوں سے پانی نکالنے کا کام فوری شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان آئی ایم کو بار بار یقین دلاتا رہا ہے کہ پختہ عزم کے ساتھ کی جانے والی پائیدار اصلاحات کی بدولت پاکستان کی معیشت میں استحکام کے مثبت آثار ہیں۔ پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مختلف اہداف اور وعدوں کو پورا کرنے کی طرف پیش رفت کرنے کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں وزیر اعظم نے آئی ایم ایف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معیشت پر حالیہ سیلاب کے اثرات کو آئی ایم ایف کے جائزہ مشن میں شامل کیا جانا چاہیے۔ کسانوں نے یہ خبر پڑھ لی ہوگی کہ آئی ایم ایف جائزہ مشن آ چکا ہے۔ لیکن اس کے اہداف کچھ اور ہیں۔ اس نے سوچا ہوگا کہ یہ کون سے اہداف ہیں۔
میرے کھیت کے ٹوٹے ہوئے بند، میرے مویشیوں کے خالی باڑے، میرے بچوں کے بھوک سے کانپتے ہوئے جسم، مکان کی گری ہوئی دیواریں، زمیں بوس چھت، بچوں کے تباہ شدہ اسکول، یہ آئی ایم ایف مشن ان سب کا جائزہ لے گی۔ وہ تو روبوٹس دیکھتے ہیں، پاکستان نے ان کی کتنی شرائط کو پورا کیا، قرض کی اگلی قسط جاری کرنے کے لیے بورڈ کا اجلاس کب بلانا ہے۔ کسان نے سوچا ہوگا یہ تو ایک الگ دنیا کے کھیل ہیں۔ فی الحال میرے کھیتوں کی کہانی، میرے بچوں کی بھوک کا تذکرہ، تعلیم سے محرومی کا ذکر، ہمارے دکھ درد یہ سب ابھی شامل نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ پاکستان مزید قرضے لے گا۔ مزید سود کا بوجھ اٹھائے اور مزید شرطیں قبول کرے گا۔
کسانوں نے سوچا ہوگا ہم اپنے زخم خود سنبھالیں گے۔ حکومت اپنے وسائل سے جو بھی مدد کرے گی اسے اپنے سر آنکھوں پر بٹھا لیں گے، خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے، قرض، سود، شرطیں پھر ان شرطوں کو ان کی مرضی کے عین مطابق پورا کرنا یہ ہم سے نہ ہوگا۔ اس لیے ہمیں اپنے پیروں پر خود کھڑا ہونا ہوگا۔ حکومت اپنے وسائل سے جتنی امداد مہیا کر دے اسی پر اکتفا کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کو چاہیے ان نقصانات کا خیال کرے اور حکومت کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ پوری معیشت ڈوب چکی۔
پنجاب کے 27 اضلاع میں سیلاب نے تباہی پھیلا دی ہے۔ سندھ کے کئی اضلاع سیلاب کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ فی الحال نقصان کا مکمل اندازہ لگانا مشکل ہے۔ آئی ایم ایف جائزہ مشن ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کو سمجھتے ہوئے نرمی کا مظاہرہ کرے گا۔