اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکی ریاست

دنیا آج تک یہ سمجھتی ہے کہ اسرائیل کا قیام ’’ اعلان بالفور‘‘ کے نتیجے میں ہوا ہے۔ اس اعلان کی علامت برطانوی دفتر خارجہ کے ایک خط کو سمجھا جاتا ہے جو 2 نومبر 1917 کو آرتھر جیمز بالفور (سیکریٹری خارجہ) نے صیہونیوں کے نام لکھا تھا۔

اس خط میں برطانیہ نے صیہونیوں کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ وہ فلسطین کی سرزمین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں بھرپور اور عملی مدد دیں گے۔

خط میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس معاہدے کی توثیق برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں 31 اکتوبر 1917 کو ہوچکی ہے۔ اس خط میں حالانکہ اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی (مسلمان اور مسیحی) کے شہری اور مذہبی حقوق یا دوسرے ممالک میں یہودیوں کی سیاسی حیثیت کو نقصان نہ پہنچے لیکن جو کچھ ہوا، وہ اس ہدایات کے بالکل برعکس ہوا۔

اسی اعلان کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ یہ اعلان بعد میں نہ صرف ترکی کے ساتھ ایک معاہدے کا حصہ بھی بنا جب ترکی جنگ عظیم اول ہار گیا بلکہ اس کو خفیہ طور پر حاییم وائز مین (جو بعد میں اسرائیل کا پہلا صدر بھی بنا) کچھ عربوں سے بھی منوایا جو اس زمانے میں اقتدارکی شدید ہوس میں مبتلا تھے اور اس کے لیے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے سمیت کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔

یہ وہ حقیقت ہے کہ جس کو دنیا آج تک مانتی ہے اور اسرائیل کے قیام کی وجہ قرار دیتی ہے لیکن آج ہم ایک اور متبادل مفروضے پر کچھ پیش کرنے کی سعی کریں گے۔

خیال رہے کہ یہ اعلامیہ (اعلان بالفور) فلسطین پر برطانوی مینڈیٹ میں شامل تھا اور 1922 میں نو تشکیل شدہ ’’ لیگ آف نیشنز‘‘ جو اقوام متحدہ کی پیشرو تھی۔ اس کی توثیق کر چکی تھی۔

یہودیوں کے لیے فلسطین ان کا آبائی گھر تھا مگر ان کے دعوے اور حقیقت میں سیکڑوں سالوں کا فاصلہ تھا، جب کہ اس علاقے میں نسلوں سے آباد فلسطینی عرب اس دعوے کے مخالف تھے۔

1920 سے 1940 کے درمیان دنیا بھر سے یہودی یہاں آکر آباد ہوتے رہے۔ ان کو جو یورپ آج یہاں بسا رہا تھا، ان کی زیادہ تر تعداد اسی یورپ کے ظلم و ستم سے بھاگ کر یہاں آرہی تھی۔

1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں کو تقسیم کرنے کی منظوری دی اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا۔

اس منصوبے کو یہودی رہنماؤں نے تو قبول کر لیا لیکن عربوں نے اسے مسترد کردیا اور اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ جیسے دوسری جگہوں سے پسپا ہوا اسی طرح اس نے 1948 میں اس علاقے کا کنٹرول چھوڑ دیا جب کہ یہودیوں نے ’’ اسرائیل‘‘ نامی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔

دنیا کو آج بھی یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی پشت پر بندوق کے زور پر دراصل کون ملک یہ فیصلے کروا رہا تھا اور دنیا کا اسٹیج کس نئی آنے والی سپر پاور کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔

اسرائیل کی پشت پر اصل میں یہی نئی سپر پاور یعنی موجودہ دنیا کا اکلوتا سپر پاور تھا، ہے اور رہے گا کیونکہ پشت اور باقی اعضاء دراصل ایک ہی جسم کا حصہ ہے یعنی اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکی ریاست ہے۔

یہ بات دنیا جتنی جلدی سمجھ لے گی، یہ دنیا کے لیے ہی اچھا ہے اور اس سے بہت سے پوشیدہ چہرے بھی عیاں ہوجائیں گے، جن میں سے کچھ ہمارے اپنے بھی ہوں گے۔ اسرائیل نے جیسے ہی اپنے قیام کا اعلان کیا تھا تو پانچ عرب ممالک نے اس پر حملہ کردیا۔

1949 میں جنگ بندی کے وقت اسرائیل فلسطین کے زیادہ تر علاقے پر قابض ہوچکا تھا۔ کچھ علاقوں پر اردن اور مصر نے بھی قبضہ کیا تھا۔ 1967 میں اسرائیل نے نہ صرف ان علاقوں پر قبضہ کر لیا بلکہ مصر اور شام کے مزید علاقوں پر قبضہ کیا اور عربوں کو عبرتناک شکست دی۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ کس کے اسلحے اور کس کی آشیرباد سے ممکن ہوا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ مجھے جواب دینے کی ضرورت ہے تمام قاری بہت سمجھدار ہیں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئے تھے کہ امریکی معیشت کی تجدید یا بحالی پر کام کریں گے اور مل کر امریکا کو دوبارہ ایک عظیم ملک بنائیں گے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ کے نتیجے میں دنیا امریکا سے متنفر ہوچکی ہے۔

قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کو امریکی آشیرباد کے ساتھ دیکھا جارہا ہے کہ جس کے نتیجے میں امریکی اسلحے کے معاہدے یا تو منسوخ ہو رہے ہیں یا پھر ان پر از سر نو غور و خوص کیا جا رہا ہے اور یہ کرنے والوں میں امریکا کے حلیف ممالک بھی شامل ہیں۔

قطر نے اپنی ڈیڑھ کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کو واپس لینے پر سوچ بچار کرنا شروع کردیا ہے اور دیگر عالمی معاملات بھی امریکا کے حق میں نہیں جا رہے ہیں۔

مستقبل میں امریکی معیشت شدید کساد بازاری کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے جو نہ امریکا کے حق میں ہے اور نہ ہی دنیا کے حق میں بہتر ہے کیونکہ امریکا کے نزدیک اس کے ملک میں ہر کساد بازاری کا حل صرف اور صرف جنگ ہے۔

 آج کل جب دنیا عقائد نہیں بلکہ مفادات کے تابع ہے۔ کیا کوئی یہ مان سکتا ہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے لیے اس حد تک جائے گا۔ اس طالب علم کی نظر میں تو اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ امریکا کا مشرق وسطیٰ میں نام اسرائیل ہے اور اسرائیل کا شمالی امریکا میں نام صرف امریکا ہے۔

Similar Posts