دعاؤں کا آنگن اور شہرنامہ

حال ہی میں مجھے دو کتابیں ’’ دعاؤں کا آنگن‘‘ اور ’’شہر نامہ (دوم)‘‘ موصول ہوئیں۔ مذکورہ کتاب کے مصنف امین جالندھری ہیں، ’’دعاؤں کا آنگن‘‘ شفیق احمد شفیق کی تخلیقات حمد و مناجات کا احاطہ کرتی ہے۔شفیق احمد شفیق کی پوری عمر لکھنے پڑھنے میں گزری، وہ صحافت کے ساتھ شاعر، نثرنگار اور نقاد بھی ہیں۔

صبح و شام کی علم و ادب کے حوالے سے کارگزاری، آخرکار رنگ لے آئی اس وقت وہ 15 کتابوں کے مصنف تو ہیں ہی ترتیب و تدوین کے اعتبار سے بھی ان کا کام اہمیت کا حامل ہے۔ زیر طبع کتب میں بھی 19 کتابوں کے نام درج ہیں۔

’’دعاؤں کا آنگن‘‘ پر نقادوں اور تبصرہ نگاروں نے اپنی بہترین آرا سے نوازا ہے۔ آخری صفحات پر پروفیسر ہارون الرشید، انور فرہاد، محمود شام، اکرم کنجاہی نے نعتیہ کلام پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔

ناقدین مبصرین کی تحاریر کے پس منظر میں دیکھا جائے تو شفیق احمد فن نعت گوئی کے روشن اور دل آویز نقش کنداں کیے ہیں۔ شفیق صاحب کی تخلیقات کے جواہر ان کے علم و فن کو کمال بخشتے ہیں۔تخلیق کار نے اپنے کلام کو مختلف عنوانات میں تقسیم کر کے قاری کے لیے آسانی پیدا کر دی ہے۔

توصیف ربائی، دست دعا دراز ہے، حمدیہ غزلیں اور گیت، حمدیہ رباعیات، حمدیہ و دعائیہ قطعات، حمدیہ تروینی، حمدیہ ہائیکو اور پھر اپنے تعارف کو نظم و نثر کی صنف میں ڈھالا ہے۔اپنے مالک خالق کی صناعی کو جس عقیدت و محبت سے شاعر نے بیان کیا ہے وہ ندرتِ بیان ایک اچھوتا انداز ہے۔

ویرانہ حیات کو گلزار کر دیا

خالق نے کائنات کو شہکار کر دیا

دھرتی نہ آسماں نہ دھنک کے تھے سات رنگ

تھا بحر بے کراں نہ تھی امواج کی ترنگ

چڑیوں کو خوش نوا کیا بخشی انھیں چہک

بخشا شعور آشیاں تحریک کا ورک

سورج نہ چاند تارے نہ باد نسیم تھی

ہر شے سے پہلے بس وہی ذاتِ کریم تھی

 شاعری کی تمام اصناف سخن میں رب کریم کی کاری گری پنہاں ہے، یہ شاعر کے وہ احساسات و جذبات ہیں جو اس نے اس گلستان دنیا کی رونقوں اور ارض و سما، اونچے بلند و بالا پہاڑوں اور سمندر و دریاؤں کی روانی اور خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور شانِ کبریائی کو دیکھتے ہوئے شاعری کی کہ جس نے سمندر کے دو مختلف رنگوں کے پانی کو ملنے نہیں دیا۔

اس نے ہی دو سمندروں کو اس طرح چلایا۔ ان کے درمیان آڑ ہوتی ہے، تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ سورۃ رحمن میں اس کا ذکر موجود ہے۔ شاعر نے اللہ کی کرشمہ سازیوں پر غور و فکر کیا کہ بے شک اس کے ’’کُن‘‘ کہنے سے وسیع و عریض زمین و آسمان پیدا ہو گئے، پوری دنیا وجود میں آگئی، انسان کو اللہ تعالیٰ نے تفکر کرنے کا حکم دیا۔

تسخیر کائنات اسی نکتے کے تحت وجود میں آئی۔ آج سائنسی ترقی نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے جب ایک تخلیق کار غور و خوض کرتا ہے تب ایسی ہی شاعری تخلیقیت کے درجے میں داخل ہو جاتی ہے۔

شفیق احمد شفیق نے اپنی بصیرت و بصارت کو بروئے کار لاتے ہوئے کیا خوب عنوان تجویز کیا ہے ’’حافظ کوئی تم سا ہے نہ ناصر کوئی‘‘۔ اپنے علم و آگہی کو انھوں نے شاعری کے پیکر میں اس طرح ڈھالا ہے:

کن کے اعجاز سے دنیا کو بنایا تم نے

اپنی قدرت کا ہنر سب کو دکھایا تم نے

شاعر اپنی کم عمری میں جب کہ انھوں نے میٹرک ہی کیا تھا ناسازگار حالات نے انھیں محنت و مشقت کرنے پر مجبور کر دیا اسی دوران انھیں ایک حادثہ پیش آیا اور اس واقعے نے ان کی بینائی کو نقصان پہنچایا۔

نگاہ کی کمزوری کی وجہ سے انھیں بہت سی مشکلات اور ذہنی و روحانی تکلیف سے گزرنا پڑا۔ نالہ شیون میں اپنے دکھ کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:

میرے بچوں کی دعاؤں کا اثر رہنے دے

اے خدا روشنیء دیدہ تر رہنے دے

ٹھوکریں میرا مقدر نہ کہیں بن جائیں

پُر اجالے سے مری راہ گزر رہنے دے

ذہن ماؤف نہ ہو جائے فشارِ غم سے

یعنی محفوظ مری فکر و نظر رہنے دے

جس طرح چھت میں مرے گھر کی ہیں چڑیاں آباد

ان پرندوں کی طرح میرا بھی گھر رہنے دے

شاعر کی سوچ کا دائرہ وسیع ہے ان کے وسعتِ خیال میں معاشرے کی ابتری، سیاسی بحران، پڑوسی ملک کی گھٹیا سیاست، انسانیت کی ناقدری اور کشمیر و بنگال (بنگلہ دیش) کے مظالم محصورین پر انسانیت سوز ظلم بے دری کا نوحہ یہ سارے مصائب و آلام ان کی شاعری میں در آئے ہیں۔ حمدیہ رباعیات میں انھوں نے عطائے رب کریم کا تذکرہ اپنے رب سے التجا کرتے ہوئے کیا ہے۔

ساون ہو کہ بھادوں، ہو عطا جاری ہے

ممنونِ کرم اس کا، ہر ایک ہاری ہے

منکر ہو منافق ہو کہ ملحد سب پر

برکھا مرے مالک کی سدا جاری ہے

اب آتے ہیں شہر نامہ دوم کی طرف۔ ہم نے امین جالندھری صاحب کے تقریباً سارے ہی کالم پڑھ ڈالے، اس کی وجہ لکھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم ان لوگوں کا ذکر بالکل نہیں کریں گے جو بنا پڑھے ہی کتاب کا حال بیان کر دیتے ہیں، خیر جانے دیجیے۔

اس کتاب میں مصنف نے ان کالموں کو شامل کیا ہے جن میں تیس سالہ ادبی محافل کی روداد ہے۔ تقریباً 200 صفحات (195) پر شہر حیدرآباد کی ادبی سرگرمیوں کا ذکر تحریروں کی دل کشی کے ساتھ اوراق پر بکھرا نظر آتا ہے۔

کالم پڑھنے کے بعد مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ امین جالندھری صاحب کھرے اور سچے انسان ہیں جو دیکھتے ہیں وہی لکھتے ہیں، قلم کاروں کو راست باز ہونا ہی چاہیے ورنہ عزت و اعتبار دونوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

لیکن یہ نکتہ وہی سمجھ سکتے ہیں جو حقیقی زندگی کے ہر معاملے میں راستی کو مدنظر رکھتے ہیں۔ تحریر کا دیرپا اثر اسی وقت ہوتا ہے جب تخلیقات میں شائستگی اور شگفتگی کا عنصر شامل ہو۔اپنے ایک کالم ’’چراغ راہ گزر‘‘ میں اس طرح رقم طراز ہیں:

’’سچی بات یہ ہے کہ سرزمین آگرہ میں اکبر آباد ہمیشہ سے ہی ممتاز رہا ہے، سرزمین آگرہ کے معتبر فرد فرید سید شاہد نظامی نے برسوں کی محنت کے بعد اپنی صلاحیت اور ذہانت سے حیدرآباد میں اک غیر معمولی کام علی اسکول عروض شاعری کے حوالے سے قائم کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انھوں نے اکبر آبادی روایت سے انحراف نہیں کیا ہے۔

ادبی روایت کے مطابق ہمیشہ آگرہ اور اکبر آباد گلِ خنداں اور بوئے گل کی طرح آبروئے گلشن ادب رہے ہیں، نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا:

عاشق کہو امیر کہو آگرے کا ہے

ملا کہو دبیر کہو آگرے کا ہے

جناب صبا اکبر آبادی کا ایک شعر بھی شامل مضمون ہے:

فضا دیکھی ہے ہر اک سرزمیں کی

ہمیشہ اکبر آبادی رہا ہوں

ایک اور کالم سے چند سطور ملاحظہ فرمائیں، عنوان ہے ’’شیر کی بیوی‘‘۔ یہ ذکر خیر ہے ممتاز و معتبر مصنف انور علوی کا، جو ’’مزاح پلس‘‘ نکالتے تھے، یہ پرچہ طنز و مزاح کی تحریروں پر مشتمل تھا۔ انور علی صاحب خود بہترین مزاح نگار ہیں، کئی کتابیں اسی حوالے سے تصنیف کر چکے ہیں۔

ان کی شہرت دور دور تک پہنچی ہے۔ اسی کالم میں جناب ایس ایم معین قریشی کی توانا اور دل نشیں تحریروں کا بھی اعتراف مصنف نے اس طرح کیا ہے۔

’’ہم تو معین قریشی کے ایک ہنر سے واقف تھے کہ موصوف ادبی تقاریب میں اتنے دلچسپ اور چست مضمون پڑھتے ہیں کہ جن کو سن کر لوگ بے ساختہ تالیاں بجاتے رہتے ہیں، اس بات کے تو ہم بھی گواہ ہیں کہ ادھر کتاب شایع ہوئی، ادھر الحمدللہ ہمارے ہاتھوں میں خوبصورت القاب و آداب کے ساتھ آگئی اور احقر کو ہر بار مضامین پڑھنے کی دعوت دی اور ہم نے خوشی خوشی اور فخر کے ساتھ قبول کی۔

بے شک ایس ایم معین قریشی بہترین مزاح نگار اور صاحب مطالعہ شخصیت تھے۔ امین جالندھری زمانہ شناس ہونے کے ساتھ ساتھ حرف شناس اور چہرہ شناس بھی ہیں۔

Similar Posts