سرخ لکیر ناگزیر ہے!

اللہ بھلا کرے نت نئی ٹیکنالوجیز کے تعارف کا، ہر پانچ دس سال بعد کوئی نہ کوئی نئی ٹیکنالوجی ایسی آ جاتی ہے جو روزمرہ کے معمولات کو نئی اور انجانی ڈگر پر لے نکلتی ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ متعارف ہوئے تو مواصلات اور کمیونیکیشن کی دنیا ہی بدل گئی۔

ای میلز، میسنجر وغیرہ کی صورت میں نیا ہائی ٹیک رئیل ٹائم جہان تخلیق ہو گیا۔ موبائل فونز اور اس کی نئی نئی قسموں، ماڈلز اور جدید فیچرز کا غلبہ ہوا تو تبدیلی کا سلسلہ مزید برق رفتار ہوتا چلا گیا۔

یوں صدیوں کے سفر سے کہیں زیادہ سفر گزشتہ تین دہائیوں میں طے پا گیا۔ رہی آگے کی بات تو بقول غالب کچھ یوں سجھائی دے رہا ہے:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا

گزشتہ 30/35 سالوں کو دوران ٹیکنالوجی کی دنیا میں بے تحاشہ اسٹارٹ اپس (Start ups) آئے، زیادہ رزق خاک ہوئے لیکن جو کامیاب ہوئے وہ انقلاب برپا کر گئے۔

ٹیکنالوجی کمپنیز کے حجم اس قدر پھیلے کہ اب دنیا کی 15/20 بڑی ٹیکنالوجی کمپنیز کی مالیت کئی ملکوں کی جی ڈی پی سے زائد ہے۔ ان ٹیک کمپنیز کے پاس اس قدر سافٹ پاور ہے جس سے انھوں نے ایک طرف بڑے بڑے ملکوں کے جمہوری اور قانونی نظام پر مکمل گرفت قائم رکھی ہے اور دوسری طرف عام انسانوں کی فکر، سوچ ، ڈیٹا اور معلومات کے اسباب پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔

الگوردم کا حساب کتاب صارفین کے مزاج اور سوچ کا مختار ہے۔ ٹیکنالوجی کمپنیز کو اپنے سائز کی وجہ سے عمومی طور پر ورلڈ آرڈر اور تمام ممالک کے قوانین سے نمٹنا آسان ہو گیا ہے۔

بہت سے ممالک ان بڑی ٹیک کمپنیز کو نکیل ڈالنے کی کوشش میں ہیں لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ معاملہ اب بہت حد تک نیشن اسٹیٹس کے ہاتھ سے نکل کر ’’گلوبلائزیشن‘‘ کی بے لگامی کے ہاتھ ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی اے آئی کے نام سے نئی ٹیکنالوجی نے دھوم مچا رکھی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان اس نئی ٹیکنالوجی میں سبقت حاصل کرنے کو ٹیکنالوجی وار کا نام دیا گیا ہے۔

چین نے ڈیپ سیک پلیٹ فارم سے مقابل امریکی کمپنی سے کہیں کم قیمت پر شاندار پروڈکٹ لانچ کر کے دنیا کو حیران اور امریکا کو پریشان کر دیا۔ ٹیک کمپنیز کے درمیان مقابلے کی فضا میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں اس تیزی سے ترقی ہوئی ہے کہ انسان اس کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش میں ہانپ رہا ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور اس کی مختلف پروڈکٹس سے جہاں بے تحاشہ آسانیاں پیدا ہوئی ہیں، وہیں دوسری طرف متعین رولز ریگولیشن نہ ہونے یا ناکافی ہونے کی وجہ سے مصنوعی ذہانت کی اگلی منزل کے بارے میں ماہرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

کئی ماہرین کے مطابق اے آئی سے پیدا شدہ آسانیاں اور سہولتیں اپنی جگہ لیکن اس ٹیکنالوجی کے اگلے قدموں سے جڑے ہوئے خدشات انتہائی خوفناک ہیں۔ اسی بناء پر معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے پیشین گوئی کی تھی کہ اگر مصنوعی ذہانت انسانی کنٹرول سے باہر ہو گئی تو عین ممکن ہے یہ نسل انسانی کو ہی تباہ کر ڈالے۔

آج کے دور میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) سب سے انقلابی اور تیز رفتار ٹیکنالوجی ہے۔ یہ صحت، تعلیم، معیشت، زراعت اور سیکیورٹی سمیت تقریباً ہر شعبے میں انقلاب برپا کر رہی ہے لیکن جہاں اس کے فوائد غیرمعمولی ہیں، وہیں اس کے خطرات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

اس پس منظر میں رواں ہفتے ’’Global Call for AI Red Lines‘‘ کے نام سے ایک اوپن لیٹر جاری ہوا ہے جس نے سکے کے دوسرے رخ کے خدشات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔

اس خط پر دنیا بھر کی دو سو سے زیادہ سرکردہ شخصیات نے دستخط کیے ہیں، جن میں نوبل انعام یافتہ سائنسدان، سابق عالمی رہنما، ماہرینِ ٹیکنالوجی اور محققین شامل ہیں۔

اس اوپن لیٹر میں کہا گیا ہے کہ دنیا کو فوراً کچھ واضح ’’سرخ لکیریں‘‘ یعنی ریڈ لائنز طے کرنی ہوں گی جنھیں عبور کرنے کی کسی بھی اے آئی ٹیکنالوجی کو اجازت نہ ہو۔ مقصد یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی رفتار سے انسانیت کو نقصان نہ پہنچے اور ترقی قابو سے باہر نہ ہو جائے۔

اس اوپن لیٹر میں ظاہر کیے گئے چند بنیادی خدشات اور تجاویز کچھ یوں ہیں:

.1 خود ترقی پذیر نظام (Self-Improving AI): وہ سسٹم جو اپنی کاپی یا اپ گریڈ خود بنا سکیں، ان پر پابندی عائد کی جائے۔

.2 فریب یا جعلی شناخت (Deceptive AI): ایسی ٹیکنالوجی جو انسان کی طرح بولے یا نظر آئے اور دوسروں کو دھوکا دے، قابلِ قبول نہیں ہونی چاہیے۔

.3 تباہ کن صلاحیتیں (Catastrophic Capabilities): وہ نظام جو بڑے پیمانے پر سائبر حملے یا تباہی مچا سکیں، ان کی تیاری روکنا ضروری ہے۔

.4 خودکار ہتھیار (Autonomous Weapons): ایسے ہتھیار جو انسانی کنٹرول کے بغیر فیصلے کریں، عالمی سطح پر ممنوع قرار دیے جائیں۔

یہ خدشات بے بنیاد نہیں ہیں بلکہ یہ عملی مظاہر سے ثابت ہیں۔ آج ڈیپ فیک وڈیوز اور مصنوعی آوازیں اتنی حقیقی لگتی ہیں کہ حقیقت اور جعل سازی میں فرق مشکل ہو گیا ہے۔

سیاسی عمل میں مداخلت، جعلی خبروں کی یلغار اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا اسی کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف بڑی ٹیک کمپنیاں مسلسل مسابقت میں نئی ایجادات کر رہی ہیں جن پر مؤثر کنٹرول ممکن نہیں۔ یہ صورت حال عالمی سطح پر عدم استحکام کو جنم دے سکتی ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جو ٹیکنالوجیز کے لیے دوسرے ممالک اور ٹیک کمپنیوں پر تکیہ کرتے ہیں، ان کے لیے بھی ان خدشات کو سیریس لینے کی ضرورت ہے۔ ففتھ جنریشن اور سوشل میڈیا کی سونامی میں فیک نیوز، پروپیگنڈا، سنسنی اور نفرت بیچنا ہمارے ہاں پہلے ہی بہت آسان ہے۔

قسم ہا قسم کی ایپس اور ہاتھوں میں اینڈرائڈ فون کی موجودگی میں اے آئی کی مدد سے کچھ بامقصد اور زیادہ تر بے مقصد/پروپیگنڈا کونٹینٹ کا جادو ابھی سے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہمیں ان ریڈلائنز کا ادراک بھی ضروری ہے اور اس کے استعمال کے لیے مناسب باؤنڈریز بھی طے کرنے کی ضرورت ہے۔

’’Global Call for AI Red Line‘‘ پر دستخط کرنے والے ماہرین متفق ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو شتر بے مہار اے آئی کی جدت انسانی بقا کے لیے خطرہ بھی بن سکتی ہے۔

فیصلہ نسل انسانی کے ہاتھ میں ہے کہ ریڈ لائن کا تعین کرکے ٹیکنالوجی کو اپنے قابو میں رکھنے میں کامیاب ہو سکے گی یا پھر آسانیوں کی تلاش، منافع کی ہوس اور مقابلے کی دوڑ میں خود کو اے آئی کے رحم پر چھوڑ دے گی!

Similar Posts