تبدیل ہوتا ہوا بین الاقوامی منظر نامہ

آج کل بین الاقوامی سیاست اہمیت اختیارکرگئی ہے۔ ایک طرف جدید ٹیکنالوجی دنیا کا منظر تبدیل کر رہی ہے جو بنی نوع انسان کی دس ہزار سالہ تاریخ کا تیسرا بڑا عمل ہے۔ اس عہد سے پہلے جو دو انقلاب آئے، وہ تھے زرعی انقلاب اور صنعتی انقلاب، مگر ریاست کی طرز اسی ڈگر پر چل رہی ہے جو اٹھارویں صدی میں تھی۔

اقوام متحدہ میں دنیا کی ریاستوں کے سربراہان کا اجلاس غیر روایتی طور پر منعقد ہوا۔ یہ اجلاس اپنی نوعیت کے اعتبار سے سرد جنگ کے بعد ہونیوالے اجلاسوں میں بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

پوری دنیا کے میڈیا کی آنکھیں ان سربراہان کی تقاریر پر مرکوز رہیں اور یہ سب تقاریر غزہ اور فلسطین کو بحیثیت ایک ریاست کو قبول کرنے اور نہ کرنے پر اپنی رائے کا اظہارکررہی تھیں۔ امریکا کی آواز اس دفعہ اسرائیل کی حمایت پرکمزور رہی ہے۔ اسرائیلی ظلم پر یورپ اپنا موقف تبدیل کر رہا ہے۔

ماضی میں جو سب سے بڑا دفاعی اور معاشی اتحاد تھا وہ امریکا اور یورپ کے درمیان تھا۔ اس معاہدے میں ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور میں دراڑیں ڈالیں اور ٹرمپ کے حالیہ بیانات ان دراڑوں میں مزید شدت پیدا کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت میں امریکا نے یوکرین کی امداد میں کمی کی، روس کو قریب کرنے کی کوشش کی جہاں ان کو بہرحال ناکامی کا سامنا ہوا۔ امریکا کی یہ کوشش تھی کہ روس اور چین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جائیں جو ہو نہ پائیں۔

یورپ اور نیٹو نے یہ محسوس کیا ہے کہ جو بڑھتے ہوئے خطرات ان کو روس سے ہیں جس میں تاریخی اعتبار سے امریکا کے ساتھ نیٹو اتحاد ہے وہ جو ڈیل تھی اب کمزور ہوچکی ہے۔ یورپ اور امریکا اسرائیل کی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں اور فلسطین پر بربریت کی حمایت کرتے رہے مگر اب یورپ نے اس حکمتِ عملی سے یوٹرن لے لیا ہے۔

یورپ، آسٹریلیا اور جاپان کے عوام نے اسرائیل کے خلاف جو احتجاج ریکارڈ کرائے ہیں، وہ تاریخ ساز ہیں۔ لٰہذا اقوام متحدہ کل 193 ممبر ریاستوں میں سے 159 ریاستیں آزاد فلسطین ریاست اور فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی حمایت کردی ہے۔

اسرائیل کے حق میں امریکا اور یورپ کا جو بیانیہ تھا،اس میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے، جب اسرائیل نے قطرکے دارالحکومت دوحہ پر فضائی حملہ کردیا جہاں امریکا کی فوجیں بھی تھیں، یہ امریکی فوج قطرکی حفاظت کے لیے بھی تعینات کی گئی تھیں۔

اس حملے کے بارے میں امریکا کے صدر ٹرمپ کو محض آدھا گھنٹہ پہلے آگاہ کیا گیا مگر وہ خاموش رہے اور ان کی یہ خاموشی اسرائیل کے حملے کی تائید تھی۔ اسرائیل نے جہاں حملہ کیا، یہ وہ ملک ہے جہاں صدر ٹرمپ چند مہینے پہلے ہی آئے تھے اور پانچ سو ملین ڈالرکی مالیت کا جہاز ان کو قطر کے حکمرانوں نے تحفے میں دیا تھا۔

اسی دورے میں صدر ٹرمپ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی گئے، جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اس دورے کے دوران متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں صدر ٹرمپ تقاریر کرتے ہوئے یہ پیغام دیتے رہے کہ اگر امریکا نہ ہو تو عرب ریاستیں اپنا دفاع نہیں کرسکتی ہیں۔

اس تناظر میں سعودی عرب کے شہزادہ سلمان رنجیدہ نظر آئے ، سعودی عرب نے اپنے تعلقات یمن سے بہترکیے اور فلسطین کی مالی امداد جو بند ہوئی تھی، وہ بحال کی۔ پاکستان کے ساتھ نیٹو طرزکا دفاعی معاہدہ کیا۔

لاطینی امریکا کی ریاستیں امریکا کی مخالف ہیں۔ ان ریاستوں نے اسرائیل کے خلاف بیان بازی تیزکردی ہے۔ اٹلی نے غزہ کے لیے دوائیں اور اشیائے خورونوش بحری جہاز کے ذریعے روانہ کی ہیں ، اسپین نے بھی ایک بحری بیڑا اس سامان کو باحفاظت غزہ تک پہچانے کے لیے بھیج دیا ہے۔ اسرائیل اب کچھ نہیں کرسکے گا جو یقینا اسرائیل کی شکست ہے اور امریکا کے لیے شرمندگی ۔

عرب ریاستوں کو اپنے دفاع کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے اور اس دفاعی ضرورت کے تحت ان ریاستوں کے درمیان پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور وہ اس لیے کہ ہندوستان اس پوری سازش میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہا۔

ہندوستان ایک طرف روس کی حمایت کرتے ہوئے امریکا سے کٹ چکا ہے اور دوسری طرف متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات بھی سرد ہوچکے ہیں۔ ہندوستان اسرائیل کی دوستی اور حمایت میں ابھی تک یہ طے نہیں کر پایا کہ کیا فلسطین ایک خود مختار ریاست ہونی چاہیے یا نہیں؟

اس پورے منظر نامے میں پاکستان کامیابی سے آگے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان کے تعلقات دہائیوں سے عرب ممالک کے ساتھ بہتر رہے۔ ہندوستان نے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بہترکرنے کی کوشش کی مگر قطر پر اسرائیل کے حملے نے ان معاملات کو پیچھے دھکیل دیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق کہ ’’ سعودی عرب ہمارے بغیر دو ہفتے بھی نہیں چل سکتا‘‘ اس بیان نے سعودی عرب کے شہزادہ سلمان کو دلیری کے ساتھ سوچنے پر مجبورکردیا۔ ایران اور عرب ریاستوں میں ٹکراؤ تحلیل ہوا۔

ترکیہ اور قطرکے سفارتی تعلقات اسرائیل کے ساتھ ختم ہوئے۔ اب ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں یا تو عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی پالیسی مرتب دی جائے گی یا پھر اسرائیل کے ساتھ۔ ہندوستان اب ان دونوں کے ساتھ برابری کے تعلقات نہیں رکھ سکتا اور اپنے سفارتی مقاصد اتنی آسانی سے حاصل کرنا، ہندوستان کے لیے مشکل ہوگا۔

اسرائیل اور ہندوستان کا اتحاد پاکستان کے خلاف تھا، وہ اسرائیل اب زیادہ دیر تک چل نہیں پائے گا، جس کا اشارہ اسرائیل نے پاکستان سے معذرت کرتے ہوئے دیا تھا، اس بیان پر جو نیتن یاہو نے دیا تھا کہ دوحہ پر حملہ اسی نوعیت کا تھا جیسا امریکا نے اسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے ایبٹ آباد پر کیا تھا۔

اسرائیل کو اس حقیقت کا اندازہ بہت اچھی طرح ہے کہ ان تمام ممالک میں اگرکوئی اسرائیل کو شکست دے سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے جس کا ثبوت پاکستان اور ہندوستان کی حالیہ جنگ میں مل چکا ہے۔ ہندوستان کی جارحیت پر پاکستان کے منہ توڑ جواب نے ہندوستان کو دفاعی اور سفارتی اعتبار سے تیس سال پیچھے دھکیل دیا ہے اور اب امریکا اس ہندوستان سے دور ہونے لگا ہے۔

ہندوستان کا دفاعی نظام بدنام ہوچکا ہے۔ پاکستان کا امریکا اور یورپ کو چھوڑکر چین کے ساتھ دفاعی اتحاد درست ثابت ہوا اور اس طرح پاکستان امریکا کو یہ باورکروانے میں کامیاب رہا کہ امریکا نے پاکستان کو چھوڑ کر ہندوستان کے ساتھ اپنے اسٹرٹیجک تعلقات بنائے اور امریکا کے اس رویے نے پاکستان کو مجبورکیا کہ وہ چین کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔

ہندوستان کے حوالے سے پاکستان اور چین کی دوستی کبھی کمزور نہیں ہوئی جب کہ چین اور ہندوستان کی دوستی دفاعی اعتبار سے کبھی نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی وجہ ہے یہ کہ ان دونوں ممالک کے درمیان طویل بارڈر اور اس بارڈرکو چین اور ہندوستان دونوں ہی نہیں مانتے۔

لٰہذا پاکستان اور چین فطری اتحادی ہیں۔ اب ہندوستان سفارتی اعتبار سے بہت کمزور ہوا ہے اور یقینا اس حوالے سے وہ پاکستان کی طرف بہتر تعلقات کے لیے جھکاؤ دکھائے گا، اگر ایسی کوئی امید نظر آتی ہے تو ہمیں بھی سندھ طاس معاہدے کی بحالی اور آیندہ آنے والی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کسی مشترکہ حکمت عملی پر ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے ہوں گے۔

ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان کے ساتھ ہمارا تجارتی لین دین ہمارے شرح نمو پر اور نہیں توکم ازکم ایک فیصد تک بہتر اثر ڈال سکتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جو بارڈر بند ہیں، اس کا نقصان پاکستان اور ہندوستان دونوں کو ہے۔

ہم ایک بہت بڑی معاشی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ان تمام حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آیندہ ہونے والی جنگوں کا اہم پہلو تجارتی اور معاشی ہے، اب جب دنیا ٹیکنالوجی کے انقلاب سے گزر رہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جنگیں اپنی نوعیت تبدیل نہ کریں۔

جس تیزی سے بین الاقوامی سیاست میں تبدیلی آرہی ہے اور جس تیزی سے ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت دنیا میں تبدیلی لارہی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ ایک دہائی کے بعد ایک نیا منظرنامہ بنے گا۔ اس بدلتی دنیا میں ریاستوں کو اپنے خد و خال معاشی حقائق کے مطابق کرنے ہونگے۔ ترقی اور شخصی آزادی کو یقینی بنانا ہوگا اور فرد کو ایک معاشی حقیقت وگرنہ اس کا معاشی پہلو مصنوعی ذہانت اس سے چھین لے گی۔

Similar Posts