فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، بیلجیم، لکسمبرگ اور مالٹا جیسے ممالک نے یہ تسلیم کر کے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی زمین اور اپنی ریاست کے جائز حق دار ہیں لیکن انھی دنوں اٹلی نے اس کے برعکس موقف اختیارکیا اور فلسطین کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ اس انکار نے پورے اٹلی کو ہلا کر رکھ دیا۔
گلیاں چوراہے اور بڑے بڑے شہر احتجاج کی آواز سے گونج اُٹھے۔ طلبہ، مزدور، خواتین اور عام شہری ایک ہی بات دہرا رہے ہیں کہ فلسطین کو تسلیم کیا جائے۔
یہ یورپ میں ایک نئی لہر ہے۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے واضح کیا کہ فلسطین کو تسلیم کیے بغیر امن ممکن نہیں۔ برطانیہ اورکینیڈا جیسے ممالک جو ہمیشہ اسرائیل کے اتحادی رہے ہیں، اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کے ایک نئے رخ پرکھڑے ہوگئے ہیں۔
یورپی ممالک میں اب رائے عامہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اور فلسطین کے ساتھ جا کھڑی ہوئی ہے۔ غزہ کی بربادی معصوم بچوں کی لاشیں برباد بستیاں اور ملبے میں دبے خواب یہ سب مناظر دنیا کو مجبورکر رہے ہیں کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔
اٹلی کی حکومت مگر اس وقت ہچکچاہٹ میں گرفتار ہے، وزیر اعظم جارجیا میلونی نے یہ اعلان کیا کہ اٹلی فلسطین کو صرف اس وقت تسلیم کرے گا جب اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا جائے اور حماس کو مستقبل کی فلسطینی حکومت سے باہر رکھا جائے۔
یہ شرطیں دراصل فلسطین کے حق کو مزید کمزورکرنے کی کوشش ہیں۔ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ایک نئی دیوار ہے جو فلسطینی عوام کے سامنے کھڑی کی جا رہی ہے۔ یہ موقف دراصل امریکا اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے ہے۔
اٹلی نے ماضی میں بھی فلسطین کے حق میں آنے والی قراردادوں سے یا توکنارہ کشی اختیار کی یا ان کی مخالفت کی۔مگر سڑکوں پر عوام کا ردعمل حکومت سے بالکل مختلف ہے۔ پچھلے ہفتے اٹلی میں ایک دن کی عام ہڑتال کی گئی جس کا نعرہ تھا ’’ سب کچھ بند کرو‘‘ اسکول بند، فیکٹریاں بند، ٹرانسپورٹ معطل اور مزدوروں نے بڑی بندرگاہوں پر جہازوں کو لنگر انداز ہونے سے روک دیا۔
یہ احتجاج محض جذباتی نہیں بلکہ سیاسی اعلان تھا کہ فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا، اب ایک اخلاقی ذمے داری ہے۔ مزدور، طلبہ، خواتین سب ایک ہی پیغام دے رہے تھے کہ یہ مسئلہ صرف مشرق وسطیٰ کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے۔
یورپ اس وقت ایک بار پھر تقسیم کے دہانے پر ہے۔ ایک طرف وہ ممالک ہیں جنھوں نے فلسطین کو تسلیم کر لیا۔ دوسری طرف وہ حکومتیں ہیں جو امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں کا بوجھ اٹھائے کھڑی ہیں۔ اٹلی اس دوسری صف میں ہے، مگر اس کے عوام اپنی حکومت کو مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب عوامی رائے مسلسل اور مضبوط ہو جائے تو کوئی حکومت زیادہ دیر تک اپنی ضد برقرار نہیں رکھ سکتی۔ آج اٹلی کے نوجوان اور مزدور جب فلسطین کا جھنڈا اٹھاتے ہیں تو وہ صرف ایک ریاست کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ ان کی یہ آواز اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں سب کے لیے انصاف ہو۔
یہ مسئلہ صرف سفارتی تسلیم کا نہیں بلکہ ایک بڑے اخلاقی سوال کا ہے۔ دنیا مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوگی یا طاقتور کے ظلم کے سامنے جھک جائے گی؟ بایاں بازو ہمیشہ اس سوال کا جواب یکجہتی میں دیتا رہا ہے۔ ویتنام جنوبی افریقہ اور اب فلسطین مظلوموں کی جدوجہد نے ہمیشہ عالمی حمایت حاصل کی ہے۔ اٹلی کے احتجاج ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ یورپ کے دل میں انصاف کی چنگاری ابھی زندہ ہے۔
اٹلی کی حکومت نے وقتی طور پر اسرائیل اور امریکا کو خوش کر لیا ہے مگر اپنی عوام کو ناراض کیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اسے بھی جھکنا پڑے گا کیونکہ تاریخ کا پہیہ ہمیشہ مظلوموں کی جدوجہد کے ساتھ گھومتا ہے۔
فلسطین کو تسلیم کرنا کوئی احسان نہیں بلکہ ایک دیرینہ ناانصافی کی تصحیح ہے۔ چاہے اٹلی جتنی بھی دیر کرے عوامی احتجاج اور عالمی یکجہتی یہ یقینی بنائے گی کہ فلسطین کی ریاستی حیثیت کو دنیا بھول نہ پائے۔
آج دنیا ایک نئے دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف وہ طاقتیں ہیں جو انسانی حقوق، انصاف اور مساوات کی بات کرتی ہیں لیکن جب مظلوم فلسطینی عوام کی آواز سننے کا وقت آتا ہے تو وہ یا تو خاموش رہتی ہیں یا شرائط اور مفادات کی سیاست میں الجھ جاتی ہیں۔
دوسری طرف وہ عوام ہیں جو بغیر کسی سیاسی مفاد کے صرف انسانیت کے نام پر ظلم کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ اٹلی کے عوام کا احتجاج اسی دوسری صف کی نمایندگی کرتا ہے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ ریاستی پالیسیاں خواہ کچھ بھی ہوں عوام کا ضمیر اگر جاگ جائے تو وہ دیواروں کو بھی ہلا سکتا ہے۔
یہ مظاہرے دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں بلکہ یہ عالمی اخلاق اور انسانیت کا امتحان ہے، اگر آج دنیا فلسطینی عوام کی نسل کشی اور ان کے حقِ خود ارادیت کی پامالی پر خاموش رہی تو کل یہ خاموشی کسی اور مظلوم قوم کی بربادی کا سبب بنے گی۔ یہ صرف جغرافیائی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ وہی بنیادی سوال ہے جو ہر دور میں ظالم اور مظلوم کے بیچ اٹھتا آیا ہے، کیا دنیا طاقت کے ساتھ کھڑی ہوگی یا سچائی کے ساتھ؟
اٹلی کی حکومت وقتی طور پر اسرائیل اور اس کے حامیوں کو خوش کر رہی ہے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسی خوشنودی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ جو ریاستیں عوامی رائے کو نظراندازکرتی ہیں وہ ایک دن خود عوامی ردعمل کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔
اٹلی کے شہریوں نے جو مثال قائم کی ہے وہ باقی یورپ اور دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔وقت آ چکا ہے کہ باقی دنیا بھی اسی راہ پر چلے۔ فلسطین کو تسلیم کرنا صرف ایک ریاستی فیصلہ نہیں بلکہ یہ انصاف امن اور انسانی وقارکے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو جتنا دبایا جائے اتنی ہی قوت سے ابھرتا ہے اور یہی سچ ایک دن فلسطین کو آزادی دلوائے گا۔