عرب ممالک کی یہ بدقسمتی ہے کہ انھوں نے اپنی سلامتی کی چابی امریکا کے ہاتھ میں دے رکھی ہے مگر اب قطر پر اسرائیل کے حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ عربوں کا اپنی سیکیورٹی کے لیے امریکا پر انحصار ایک غلطی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
امریکا نے عربوں کی سیکیورٹی کے نام پر پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی فوجی چھاؤنی بنا رکھا ہے۔ اس نے ہر قسم کے جدید مہلک ہتھیاروں کا وہاں ڈھیر لگا دیا ہے۔ اب قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ اس کے عرب ممالک میں اسلحے کے ڈھیر دراصل اس کے ازلی دشمن روس اور چین سے نمٹنے کے لیے ہیں، ساتھ ہی ایران کو ڈرانے کے لیے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ امریکا کی سب سے بڑی ایئر بیس قطر میں واقع ہے اور اس کا مقصد قطر کی حفاظت کرنا ہے تو پھر اس نے اسرائیلی حملے کو کیوں نہیں روکا اور بعد میں یہ عذر پیش کرنا کہ اسے بروقت پتا نہیں چل سکا، یہ اس کی اسرائیل نواز مکارانہ پالیسی کا اظہار ہے۔
امریکا اب ضرور کہہ رہا ہے کہ آیندہ ایسا نہیں ہوگا مگراسرائیل بہ بانگ دہل کہہ رہا ہے کہ وہ آیندہ بھی بار بار حملے کرتا رہے گا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں جو بھی جارحیت کر رہا ہے اس میں اسے درپردہ امریکی آشیر باد حاصل ہے۔
پھر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل امریکی حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، اس لیے کہ اس کی اپنی سلامتی امریکی رحم و کرم پر ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ شام، لبنان اور عراق پر جارحیت امریکی آشیرباد کے بغیر نہیں ہے، اگر غور کریں تو اسرائیل کا مشرق وسطیٰ میں قیام ہی عرب ممالک سے امریکا کی دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔
اسرائیل کے قیام کا مشرق وسطیٰ میں کوئی جواز ہی نہیں تھا مگر عرب ممالک کو مجبوراً اسے قبول کرنا پڑا۔ جہاں تک گریٹر اسرائیل کا معاملہ ہے تو 1967 میں ہی اردن اور شام کے علاقوں پر قبضہ کر کے اس نے اپنے اس منصوبے پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا۔
سلامتی کونسل میں امریکا کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی روکنے کے لیے مسلسل ویٹو کے استعمال کرنے سے عربوں کو امریکی بدنیتی کا پتا چل چکا ہے پھر صدر ٹرمپ کے اسرائیل کی جانب جھکاؤ اور اسے مسلسل اسلحے کی فراہمی نے بھی امریکی دھوکے بازی سے عربوں کی آنکھیں کھول دی ہیں، ان تمام عوامل سے ثابت ہو گیا ہے کہ امریکا صرف اسرائیل کے مفادات اور اس کی سلامتی کو اہمیت دیتا ہے، اسے عربوں کے مفادات اور سلامتی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
چنانچہ اس تناظر میں عربوں کا امریکا پر سے اعتماد کا اٹھنا فطری بات ہے، امریکا کو بھی اپنی پالیسی پر غور کرنا چاہیے ۔ قطر پر اسرائیلی حملہ تمام عربوں کی سلامتی پر براہ راست حملہ نہیں تھا مگر اس حملے سے عربوں کو امریکی پالیسی کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہے، چنانچہ انھیں اپنی سلامتی کے لیے صرف امریکا پر انحصار کرنے کے بجائے دوسرے راستے اختیار کرنے پر مائل کر دیا ہے اور اسی سوچ کا مظہر پاک سعودی دفاعی معاہدہ بھی ہے۔
قطر پر حملے کے بعد دوحہ میں منعقد ہونے والے اسلامی ممالک کے اجلاس میں پاکستان کی جانب سے نیٹو کی طرز پر تمام اسلامی ممالک کی ایک مشترکہ فوج بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی جس کی کئی ممالک نے حمایت کی تھی ۔ اسی تناظر میں پاک سعودی دفاعی معاہدہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔
لگتا ہے اب دوسرے عرب ممالک بھی رفتہ رفتہ اس معاہدے میں شامل ہو جائیں گے اور یہ نہ صرف ایک موثر اسلامی فوج کی تشکیل کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔ بہرحال اس وقت پاک سعودی دفاعی معاہدے نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے ، خاص طور پر یہ معاہدہ بھارت اور اسرائیل پر ضرور گراں گزرا ہوگا مگر انھیں اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک دفاعی معاہدہ ہے، یہ کسی ملک پر جارحیت کی اجازت نہیں دیتا مگر حملہ آورکا سرکچلنے کی اجازت ضرور دیتا ہے۔
بھارت کا اس معاہدے پر تحفظات کا اظہارکرنا، دراصل اس کی پاکستان کے خلاف جارحیت اور کشمیریوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانے کے آگے پل باندھنے کے مترادف ہے۔ دنیا گواہ ہے کہ اس نے گزشتہ دنوں پاکستان کے خلاف بلاجواز جارحیت کی مگر اس کی یہ جارحیت اس کے اپنے گلے پڑ گئی۔
اور اب ایک شکست خوردہ قوم کی طرح دنیا کے سامنے سر جھکائے کھڑا ہے۔ اب لگتا ہے اس معاہدے کے بعد وہ پاکستان پر جارحیت کرنے سے باز آجائے کیونکہ اس معاہدے کی یہ شق کہ ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا اور اس حملے کا دونوں ملک مل کر جواب دیں گے اس کے لیے بہت سخت ہے۔
وہ پاکستان کا ضرور دشمن ہے مگر سعودی عرب سے کوئی پنگا نہیں لینا چاہے گا کیونکہ اس کے سعودی عرب سے وسیع تجارتی تعلقات ہیں، چنانچہ اب وہ پاکستان کے خلاف جارحیت کا رخ پاکستان میں دہشت گردی کو مزید ہوا دینے کی جانب موڑ سکتا ہے ویسے تو وہ پہلے ہی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ چنانچہ حکومت پاکستان کو اب دہشت گردی کو ملک سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔