ایٹمی قوتیں جنگ کی متحمل نہیں، تحمل اور سفارت وقت کی ضرورت ہے، سابق سفرا

0 minutes, 0 seconds Read

سابق سفیر حسین حقانی نے کہا ہے دنیا کی خواہش ہے کہ جنگ نہ ہو۔ سیاسی مفاد کی خاطر الزام لگا کر جنگ کی کیفیت پیدا کی جائے تو دنیا کو یہ پسند نہیں۔ بھارت نے پاکستان پر بہت جلدی الزام لگا دیا ہے اور اس کے ثبوت پیش نہیں کیے، آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ملیحہ لودھی نے کہا بھارتی وزیراعظم کے بیان سے لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی حملہ ضرور ہوگا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔

سابق سفیر برائے امریکا حسین حقانی

آج نیوز کے پروگرام نیوز انسائٹ وِد عامر ضیا میں پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر برائے امریکا حسین حقانی نے کہا کہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور ایسی صورت میں جنگ سے دور رہنا ہوتا ہے، جنگ کرنا نہیں ہوتا۔ یہ ایسا نہیں کہ پہلے ہمارے پاس چھوٹے پتھر تھے اب بڑا پتھر آ گیا ہے، ایٹمی ہتھیاروں کی ایک پوری سائنس ہے۔

حسین حقانی نے کہا کہ دونوں ممالک کا مزاج ہے کہ بیان بازی، جنگ کا شور جس طرح بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر نظر آ رہا ہے، حقیقی طور پر اس کا امکان جو سمجھدار عناصر ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ کم ہے لیکن یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کارروائی نہیں کرے گا۔

سابق سفیر نے کہا کہ اس سے قبل 2016 اور 2019 میں انھوں نے جنگ کا اعلان کیا تھا لیکن ان میں کسی کارروائی کے نتیجے میں جنگ نہیں ہوئی۔ اس بار بھی دنیا کی خواہش وہی ہے کہ جنگ نہ ہو۔

حسین حقانی نے کہا کہ بین الاقوامی رائے عامہ کے تین پہلو سامنے رکھنے چاہییں، ان میں پہلا یہ کہ سب یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے پاکستان پر بہت جلدی الزام لگا دیا ہے اور اس کے ثبوت پیش نہیں کیے، دوسری بات یہ کہ پاکستان کو بہرحال یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ماضی میں مقبوضہ کشمیر میں جہادیوں کے ذریعے حملے کیے گئے اور اس پر بات چیت کی گنجائش موجود ہے اور آخری بات یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرے یا پاکستان بھارت کے خلاف کوئی ایسی فوجی کارروائی کرے جس کے نتیجے میں جنگ ہو۔

انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ بھارتی ایکسپرٹ نے تسلیم کیا کہ کچھ ٹولیاں کشمیر میں ہیں جو ضروری نہیں کہ پاکستان سے منسلک ہوں، سیاسی مفاد کی خاطر الزام لگا کر جنگ کی کیفیت پیدا کی جائے تو دنیا کو یہ پسند نہیں۔ دونوں ملکوں کو غیر ریاستی عناصر پر قابو پانا ضروری ہے۔

سابقی سفیر نے مزید گفتگو میں کہا کہ مسئلے کے حل سے زیادہ پوائنٹ اسکورنگ اور بھڑک مارنا زیادہ ہوتا ہے، ایسے حالات میں تھوڑا ٹھنڈا ہونا اور اپنے بیانیے کا قیدی نہ بننے کی ضرورت ہے، صدر ٹرمپ کا رویہ یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کو اپنے معاملات خود حل کرنے چاہییں۔ ماضی سے فرق یہ ہے کہ امریکی صدر کا کردار کم مگر بیورو کریسی، انٹیلی جنس کا کردار موجود ہے۔

سابق مندوب برائے اقوام متحدہ ملیحہ لودھی

سابق مندوب برائے اقوام متحدہ ملیحہ لودھی نے بھی آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لگتا یہی ہے کہ بھارت کوئی نہ کوئی ایکشن ضرور لے گا، اس کی نوعیت کیا ہوگی یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔

ملیحہ لودھی نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم مودی کے بیان سے لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی حملہ ضرور ہوگا، اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔

انھوں نے کہا کہ امریکا نے 2019 میں بحران کا حل کرنے میں کردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجے میں بھارتی پائلٹ کو رہا کیا گیا تھا۔ پچھلی بار کئی وجوہات نے مل کر دونوں ملکوں کے درمیان بحران حل کرنے میں مدد کی تھی۔

ملیحہ لودھی نے کہا کہ اس بار خطرات زیادہ ہیں کیوںکہ پچھلے 25 سال میں یہ پانچواں بحران ہے، پچھلے دو روز سے امریکا کافی ایکٹیو ہو رہا ہے، پاکستانی اور بھارتی آفیشلز سے فون پر بات ہوئی ہے۔ امریکا کردار پس پردہ نظر آ رہا ہے۔

انھوں نے مزید اپنی گفتگو میں کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا، بھارت سننے کو تیار نہیں ہے۔ دشمن کی کاپی نہیں کرنی چاہیے، پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے جو کافی مثبت حکمت عملی ہے

Similar Posts