تماش بین نہیں، تاریخ کے معمار بنو

بارود سے بوجھل فضا میں سانس لیتا آسمان، مٹی پر بکھرا گرم لہو، اور زخموں سے چور وہ چیخیں جو اب شور نہیں کرتیں بلکہ دل چیرتی سرگوشی بن چکی ہیں۔ ہاتھوں میں محض پتھر اٹھائے ایک نہتا بچہ جو فولادی ٹینک کے سامنے اس طرح کھڑا ہے جیسے وہی اس دھرتی کا آخری محافظ ہو۔

نہ التجا، نہ لرزش بس ایک بے باک خاموش عورت، سرخ آنکھوں کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک اسرائیلی سپاہی کو گھور رہی ہے اور ایک ماں، اپنے وجیہہ بیٹے کی لاش کے قریب بیٹھی، جو سر جھکائے بین کر رہی ہے یا شاید تاریخ کے صفحات پر آنسوؤں سے احتجاج لکھ رہی ہے۔ فلسطین ایک ایسی کہانی ہے جس کا ہر منظر کرب، ہر کردار مظلوم، اور ہر قاری شرمندہ ہے۔ مگر پھر بھی یہ کہانی ہر روز دہرائی جاتی ہے۔ اور پتہ نہیں کب تک دہرائی جاتی رہے گی؟

اگر تم سمجھنا چاہتے ہو تو آؤ ہم مل کر ان واقعات کو پڑھتے ہیں جو اکثر تاریخ کے حاشیوں میں دب چکے ہیں۔ فلسطین کی داستان صرف بم بار طیاروں، مسلح جھڑپوں یا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کہانی نہیں۔ یہ ایک صدی پر محیط وہ جال ہے جو بڑی چالاکی سے بُنا گیا تھا۔ کہانی کا آغاز ایک عدالت کے کمرے سے ہوا تھا اور انجام آج بھی خون میں لت پت غزہ کی کسی گلی میں جاری ہے۔

چلو ذرا ماضی میں سجی فرانس کی ایک فوجی عدالت میں چلتے ہیں۔ یہ ۴۹۸۱ کا سال اور ملزم کا نام الفریڈ ڈریفس تھا۔ ایک یہودی کیپٹن، جس پر جرمنی کو رازفروشی اور وطن سے غداری کے الزامات کا سامنا تھا۔ اگرچہ ثبوت کم زور تھے مگر فضا میں نفرت کا زہر بہت گہرا تھا۔ عدالت نے سزا سنائی، فرانسیسی قوم نے سانس لیا، اور تاریخ نے پردے کے پیچھے کروٹ لی۔

تم پوچھو گے اس کا فلسطین سے کیا تعلق ہے؟ دراصل یہی وہ لمحہ تھا جب پورے یورپ کے یہودیوں نے آئینے میں خود کو دیکھا اور انہیں اپنی شناخت بے معنی محسوس ہوئی۔ شہریت، وفاداری اور عسکری خدمات سب رائیگاں لگیں اور اسی احساس نے ایک یہودی مفکر، تھیوڈر ہرزل کو سوچنے پر مجبور کیا کہ اگر دنیا ہمیں ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھے گی تو ہمیں اپنی زمین، اپنا پرچم اور اپنا وطن خود بنانا ہوگا۔

۷۹۸۱ میں سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی صیہونی کانگریس منعقد ہوئی اور وہاں ایک ایسا منصوبہ تیار ہوا جس نے آنے والے سالوں میں دنیا کا نقشہ تبدیل کردیا۔ منصوبہ سادہ مگر شاطر تھا۔ فلسطین کو یہودی وطن کا مرکز بنایا جائے۔ دنیا بھر کے یہودیوں کو اس مقصد پر اکٹھا کیا جائے اور چاہے وہ دروازہ سفارت کا ہو یا سرمائے کا، عالمی طاقتوں کو اس منصوبے پر رضامند کرنے کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ یہ کوئی اچانک ابھرتی ہوئی ریاست نہ تھی بلکہ تاریخ کی سب سے منظم اور مربوط پیش قدمی تھی۔

یورپ میں جنگ عظیم چھڑ چکی تھی۔ سلطنتِ عثمانیہ آخری سانسیں لے رہی تھی اور عرب دنیا میں غیریقینی کے بادل منڈلا رہے تھے۔ اسی وقت ایک اور جال پھینکا گیا۔ مکہ کے والی، شریف حسین کو انگریزوں نے خط لکھا ’’اگر تم خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرو گے، تو ہم تمہیں آزاد عرب ریاست دیں گے۔‘‘ شریف حسین نے یقین کر لیا اور عربوں نے بغاوت کردی۔ خلافت پسپا ہوگئی اور انگریزوں نے یہودیوں سے دوسرا وعدہ بھی نبھایا۔

۷۱۹۱ میں، برطانوی وزیرخارجہ آرتھر جیمز بالفور نے بارن روتھ چائلڈ کو ایک خط لکھا جسے بالفور ڈیکلریشن کہا جاتا ہے۔ اس خط میں فلسطین میں یہودی قومی وطن کی تشکیل پر برطانیہ کی سرکاری حمایت کا اعلان کیا گیا۔ یوں ایک ہی وقت میں انگریز دو چالیں چل چکے تھے۔ عربوں سے آزادی کا وعدہ اور یہودیوں سے زمین کا۔

اسی دوران، تھیوڈر ہرزل کی صہیونی تنظیم خاموش نہ بیٹھی۔ انہیں معلوم تھا کہ جنگیں صرف توپ سے نہیں، تزویراتی شعور سے جیتی جاتی ہیں۔ ۱۰۹۱ میں ہرزل نے سلطان عبدالحمید ثانی کو فلسطین میں آبادکاری کے بدلے ۰۵۱ ملین پاؤنڈ سونے کی پیشکش کی مگر سلطان نے ٹھکرا دیا۔ اور آج جب تاریخ کے صفحات پلٹے جاتے ہیں، وہ انکار ایک قومی غیرت کی علامت بن چکا ہے۔

پھر ایک صبح، نقشہ بدل چکا تھا۔ ۸۴۹۱ کا سورج فلسطین پر اس طرح طلوع ہوا کہ ایک قوم کا سایہ بھی چھن گیا۔ راتوں رات اسرائیل، اقوامِ متحدہ کی مہر کے ساتھ دنیا کے نقشے پر اُبھر آیا۔ فلسطینی تاریخ کی سب سے بڑی جلاوطنی میں دھکیل دیے گئے۔

عرب ممالک نے احتجاج کی کوشش کی، مگر آواز منتشر تھی، قیادت بکھری ہوئی اور حکمتِ عملی ناپید۔ ۸۶۹۱ میں جو بچا تھا، وہ بھی چِھن گیا۔ اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کیا، اور ساتھ ہی عرب قیادت کی ساکھ کو بھی روند ڈالا۔ غزہ، ایک ایسی جگہ بن چکا تھا جہاں فلسطینی ایک آزادی کے تحت قید تھے جسے خودمختاری کا نام تو دیا گیا، مگر سانس لینے کے لیے بھی اجازت تل ابیب سے لینی پڑتی تھی۔

اقوامِ متحدہ بس تشویش کے اظہار پر اکتفا کرتی رہی۔ پانی، بجلی، خوراک، اسکول، اسپتال سب کچھ مشروط ہوگیا۔ جو شخص ایک بار سرحد پار کرجائے، وہ اپنے ہی وطن میں واپس آنے کا حق کھو بیٹھتا، کیوںکہ اسرائیل کو ’’آبادی کا توازن بگڑنے کا خدشہ تھا۔ جب بھی حماس کوئی راکٹ داغتی، اسرائیل اسے بین الاقوامی قانون کی شق۵۱ کے تحت دفاع کا جواز بنا کر حملے شروع کر دیتا اور ان حملوں میں مرنے والوں کی اکثریت میں معصوم بچے، مائیں، اساتذہ، نمازی ہوتے اور پھر اکتوبر ۳۲۰۲ آ گیا۔

غزہ سے راکٹ، سرحد پار دھاوا، اور اچانک حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے حیرت، دنیا کے لیے دھچکا، اور فلسطین کے لیے ایک نئی قیامت ثابت ہوا۔ اس بار فولادی قلعے میں دراڑ ضرور پڑی۔ لیکن انجام؟ اسرائیل نے غزہ کو زمین سے نہیں، تاریخ سے مٹانے کی ٹھان لی۔ ہزاروں ٹن بارود، اسپتالوں پر حملے، اسکولوں میں لاشیں، جنازوں کے قافلے، عبادت گاہیں ملبے کا ڈھیر۔ اور دنیا؟ اسے صرف ’’اسرائیل کا دفاعی حق‘‘ نظر آیا۔ ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے جن کی اکثریت بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر مشتمل تھی۔

غزہ کی گلیاں قبریں بن گئیں، اسپتال ملبے میں دفن ہو گئے اور اقوام عالم بس ایک جملہ دہراتی رہی: ’’ہم دونوں فریقوں سے تحمل کی اپیل کرتے ہیں۔‘‘

اور ہم۔۔۔ ہم وہ قوم ہیں جو پروفائل فریم لگا کر فرض پورا کرلیتی ہے۔ ٹی وی شوز میں آنسو بہاتی ہے اور جب جذبات ابال مارتے ہیں تو ’’مار دو، جلا دو‘‘ جیسے نعرے لگا کر خود کو سالارِاسلام سمجھتی ہے۔ سو اس بار بھی ہمارا ردعمل وقتی جذبات کے اظہار تک محدود رہا۔

شاید یہی ہمارا امت سے اخلاص کا تصور ہے اورشاید یہی ہمارے شعور کی بلندی ہے۔ ہم ہر بار دشمن کی سازش کا رونا روتے ہیں، مگر خود سے نہیں پوچھتے کہ ہمارا بیانیہ پر مبنی عمل کہاں ہے؟ کیا ہمیں کبھی اس بات کی ضرورت بھی محسوس ہوئی ہے کہ دنیا کو قائل کرنے کے لیے ہم ایک ٹھوس سفارتی، ٹیکنالوجی، میڈیا یا علم پر مبنی حکمتِ عملی اپنائیں؟ تھیوڈر ہرزل نے ایک بے وطن قوم کو دنیا کی منظم ترین ریاست دلوائی اور ہم؟ ہم صرف ’’امت مسلمہ‘‘ کے نعرے پر تکیہ کر کے انصاف مانگتے ہیں۔ یاد رکھو دنیا انہیں سنتی ہے جن کے پاس علم، نظم، اتحاد، اور مستقل مزاجی ہوتی ہے۔ جذبات وقتی ہوتے ہیں، مگر نظام سازی ہی قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔

تو اب کیا کرو گے؟ کیا اب بھی صرف احتجاج پر گزارا کرو گے؟ یا سیکھو گے، سمجھو گے اور آگے بڑھو گے؟ اگر واقعی فلسطین کے ساتھ ہو تو سب سے پہلے اپنے اندر وہ شعور پیدا کرو جو فیصلے کرتا ہے، فتوے نہیں۔ علم حاصل کرو تاکہ سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکو۔ قلم اٹھاؤ تاکہ بیانیہ تمہارا ہو، ترجمانی دوسروں کی نہ ہو۔ اپنے ملک کو مضبوط کرو کیوںکہ ایک مضبوط پاکستان ہی ایک مضبوط امت کی ضمانت ہے۔ اگر تم صرف دوسروں کے چہرے دیکھو گے تو شاید کچھ نظر نہ آئے، لیکن اگر کبھی ہمت کر کے خود کو دیکھنے لگو، تو وہ دن دور نہیں جب تم صرف تماشائی نہیں بلکہ تاریخ کے کردار بن جاؤ۔

Similar Posts