پاکستان داخلی دہشت گردی اور تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو تحفظات کافی عرصے سے افغانستان کے سامنے پیش کررہا ہے، اس پر افغان طالبان کا طرز عمل وہ نہیں جو پاکستان کو درکار ہے۔
اگرچہ افغانستان کی طالبان حکومت ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان کو یہ یقین دہانی کراچکی ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی صورت میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے کسی کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔لیکن اس یقین دہانی کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہورہی ہے ، افغانستان کی طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی سہولت کاری بھی کررہی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کا داخلی سیکیورٹی بحران بڑھ رہا ہے اور اس کے تانے بانے افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں جو صرف ان دونوں ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ خطہ کے مجموعی امن اور سیکیورٹی کے لیے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔
اسی بنیاد پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے پہلی بار افغان حکومت کو واضح اور دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ وہ اب خوارج یعنی دہشت گرد یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ان کے بقول اب پاکستان میں افغان حکومت یا ان کی سہولت کاری کی مدد سے کام کرنے والی ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا بلکہ طاقت کی بنیاد پر اس سے نمٹا جائے گا اور اس پر کسی بھی سطح پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
پہلی بار وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان ہمارا دشمن ملک اور اب ہمیں اس سے کوئی اچھائی کی توقع نہیں اور ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب کچھ ہفتے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات کی بہتری کے لیے سفارت کاری اور ڈپلومیسی کا عمل چل رہا تھا۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ معاملات حل ہونے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کی طرف چلے گئے ہیں ۔کیونکہ افغان حکومت کی جانب سے بھی پاکستان پر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے بقول پاکستان کی حکومت اپنی داخلی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ہم پر الزام عائد کرکے خود کو سیاسی طور پر بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔
اس لیے پاکستان ہم پر داخلی سطح پر ہونے والی دہشت گردی کا ملبہ ڈال کر خود کو بچانے اور دو طرفہ تعلقات میں خرابیاں پیدا کررہا ہے۔معروف تجزیہ کار کامران یوسف کی رپورٹ کے بقول پاکستانی حکام نے اس بات کا تعین کیا ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے حالیہ حملوں میں ملوث 70فیصد عسکریت پسند افغان شہری تھے۔یہ تعداد گزشتہ برسوں میں ریکارڈ کیے گئے 5سے 10 فیصد کی شرح سے بہت زیادہ ہے ۔ان کے بقول اگرافغان طالبان حکومت نے ان معاملات پر ٹھوس اقدامات نہ کیے تو یہ نقطہ اہم فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے۔
اگرچہ حالیہ دنوں میں افغان حکومت نے پاکستان کی جانب سے دھمکی آمیز لہجے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان کے بقول بات چیت اور اعتماد سازی کے ساتھ بات کو آگے بڑھانا ہوگا۔لیکن افغان حکومت یہ بھول رہی ہے کہ پاکستان نے دو طرفہ تعلقات کی بہتر ی سمیت داخلی دہشت گردی اور ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف سرگرمیوں یا دہشت گردی پر ہمیشہ بات کی اور اپنے تحفظات سے بارہا آگاہ کیا مگر افغان حکومت نے نہ تو مثبت جواب دیا اور نہ ہی ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بڑا اقدام اٹھایا جو ظاہر کرتا ہے کہ افغان حکومت پاکستان کے تحفظات پر کسی بھی عملی اقدام کے لیے تیار نہیں۔
ایک طرف پاکستان کو ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے داخلی محاذ پر دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف بھارت افغانستان کو پاکستان مخالف سرگرمیوں اور ٹی ٹی پی کو سہولت کاری بھی کررہا ہے۔بھارت، افغانستان اور ٹی ٹی پی کا باہمی گٹھ جوڑ پاکستان مخالف سرگرمیوں کا مرکز ہے اور اسی تناظر میں ہمیں ان ممالک سے پراکسی جنگ کا سامنا ہے جو ہماری داخلی سیکیورٹی کے نظام کو چیلنج بھی کرتا ہے اور نئے خطرات کو پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔
اب امریکا نے افغانستان سے بگرام ائربیس مانگنے کا مطالبہ کیا ہے اور دھمکی دی ہے اگر افغان حکومت نے ایسا نہ کیا تواس کو اس کے سنگین سطح کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔طالبان نے فوری طور پر امریکی مطالبہ کو مسترد کردیا ہے ۔لیکن ساتھ ساتھ بات چیت کا عندیہ بھی دیا ہے اور یقیناً افغان حکومت امریکا سے چند بڑی سیاسی اور مالی شرائط کے ساتھ اس پر رضا مند بھی ہوسکتی ہے۔لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر افغان حکومت ایسا کرتی ہے تو اس پر چین کا کیا ردعمل ہوگا اور کیا چین کو ناراض کرکے افغان حکومت اپنی ائر بیس دے سکتی ہے۔
اسی طرح اگر امریکا اس ائر بیس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کے پیچھے اس کے اصل مقاصد کیا ہیں اور پاکستان پر اس ائر بیس کے تناظر میں داخلی سطح پر کیا اثرات پیدا ہوںگے اس پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔اسی طرح ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان امریکا اور چین کے ساتھ بہتری پر مبنی تعلقات کے ساتھ کھڑا ہے اور دونوں بڑے ممالک پاکستان کو سفارتی سطح پر فوقیت دے رہے ہیں۔
ایسے میں کیا چین اور امریکا اپنی سطح پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے موجود بگاڑ کو ختم کرنے میں کوئی کلیدی کردار ادا کریں گے اور کیا بھارت وافغانستان کی باہمی مداخلت جو پاکستان مخالف ہے اس کو ختم کرنے میں کوئی بڑا کردارادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔کیونکہ ایسے لگتا ہے اب چین اور امریکا کی بڑی حمایت اور سفارت کاری کے بغیر پاکستان اور افغانستان کا بحران حل نہیں ہوسکے گا ۔