’’ ظاہر ہے بیٹا کہ ہر آنے والی نسل، پچھلی نسل سے زیادہ تیز و طرار ہوتی ہے، آج کل کی نسل تو لگتا ہے کہ کمپیوٹر اور فون کا استعمال سیکھ کر پیدا ہوتی ہے۔‘‘
’’ ایسا ہی ہے بالکل، میرا آٹھ سال کا بیٹا، مجھ سے زیادہ کمپیوٹر ، فون اور ٹیبلٹ کا استعمال جانتا ہے۔ میرے اسمارٹ فون کے کتنے ہی فیچر ہیں جن کا مجھے علم بھی نہیں اور وہ مجھے بتاتا ہے۔‘‘
اپنے خاندان میں کتنی ہی مثالیں ہیں اس ’’اسمارٹ نسل ‘‘ کی جو کہ سب کچھ فون کے ساتھ ساتھ کرتی ہے۔ ان کا کھانا نہ نگلا جاتا ہے اور نہ ہضم ہوتا ہے ہاتھ میں اسمارٹ فون لیے بغیر۔ وہ بچے نہاتے بھی تب ہیں جب باتھ روم میں ان کے سامنے فون کو کسی میز یا کرسی پررکھ کر اس پر ان کی پسند کا پروگرا م چلایا جائے۔ ایک لفظ سمجھ میں نہیں آتا نہیں اس گفتگو کا جو کہ وہ کارٹون کریکٹر کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کے لہجوں کی اور حرکتوں کی نقالی کرتے، شکلیں بگاڑتے ہوئے بھاگتے دوڑتے اور اچھلتے کودتے بچے دیکھتی ہوں تو خود ہی ورطہء حیرت میں چلی جاتی ہوں اور سوال کرتی ہوں ، ’’ کون ہیں یہ بچے؟؟‘‘ کہاںکی مخلوق ہیں۔
یہ معصوم بچے جنھیں سب سے پہلے مائیں خود ہی اپنا فون پکڑا دیتی ہیں کہ بچہ فون پر مصروف رہی اور وہ اپنے کام کر لیں، وہ ان کارٹو نزکو دیکھ کر خوش ہی نہیں ہوتے بلکہ ان سے سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے لہجے میں باتیں کرتے ، ان کی طرح اچھلتے کودتے اور ناچتے گاتے ہیں۔
ان کی زبان جلد سیکھتے ہیں اور سمجھنا بھی شروع کردیتے ہیں۔ بچہ ذرا بڑا ہوتا ہے، ٹھوس غذا کھانا شروع کرتا ہے تو وہ اس خوراک کو رد کرتا ہے کیونکہ اسے اس سے پہلے اس غذا کو نگلنا یا چبانا نہیں آتا تھا۔ اس مشکل وقت میں ہم مائیں کوشش کر کے غذا کو پر ذائقہ اور پرکشش بنانے کی کوشش کرتی تھیں تا کہ بچے کو وہ غذا جاذب نظر لگے اورشوق سے کھا لے۔ آج کی ماؤں نے اس کا حل بھی فون میں تلاش کر لیا ، کوئی ایسا کارٹون ڈھونڈ نکالتی ہیں جس میں کارٹون کریکٹر کھا رہے ہوں گے تو بچہ ان کو دیکھ دیکھ کر کھانا شروع کر دے گا۔
یہ ایک دن کی بات نہیں ہے، ا س کے بعد بچے کو اس کی چاٹ پڑ جائے گی، وہ غذا اور کارٹون کو بھی آپس میں منسلک کر لیتا ہے۔ڈائپر چھڑوانے کا وقت آتا ہے، مائیں بچوں کو potty training شروع کرتی ہیں تو بھی بچہ ٹک کر بیٹھنے سے انکار کر دیتا ہے اور مائیں اس کا حل پھر فون میں نکال لیتی ہیں، بچوں کو کارٹون لگا کر دے دیتی ہیں اور بچے اصل میں تو پوری توجہ کارٹون پر مرکوز کردیتے ہیں اور باقی کام قدرت کا ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط رجحان ہے، صرف بچوں میں ہی نہیں بلکہ بڑوںمیں بھی اپنے ساتھ ٹائیلٹ یا غسل خانے میں اپنا فون ساتھ لے کر جانا کئی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔
ہمیشہ سے بچوںکی تربیت میں اہم اصول ہے کہ جب آپ بچے کو کچھ پڑھنے کو دیں، کوئی کتاب یا کہانی تو پہلے اسے خود پڑھیں اور تصدیق کرلیں کہ اس میں کوئی ایسا مواد نہ ہو جو ہمارے مذہبی عقائد، ملکی مفادات اور معاشرتی حالات سے متصادم ہو۔ اسی طرح اگر آپ بچے کو کوئی ٹیلی وژن پروگرام دیکھنے کی اجازت دے رہے ہوں، حتی کہ وڈیوگیمز کھیلنے کو دیں یا دیکھنے کو کارٹون تو ان میں بالخصوص چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ ان میں بھی ایسی زبان استعمال نہ ہوئی ہو، آج کے بچے ان الفاظ کو اپنی روزمرہ گفتگومیں بالکل مناسب سمجھتے ہیں جن الفاظ کے بولنے تو کجا، سننے پر بھی ہم پابندی لگایا کرتے تھے۔
جن اصطلاحات کو ہم آج بھی نہیں سمجھتے، ان کے بارے میں معلومات ہمارے بچوں کے پاس کیسے کمال کی ہیں کہ ہم سنتے اور سر دھنتے ہیں ۔ میرے پاس ایک کپڑا تھا جس میں قوس قزح کے رنگ تھے اور میں سوچ رہی تھی کہ اس سے کیا بناؤں، خاندان کا ہی ایک بچہ جس کی عمر سات سال سے چند ہفتے کم ہی تھی، مجھ سے سوال کرنے لگا کہ میں اس کپڑے سے کیا بنانے والی تھی۔ میں نے کہا شاید کسی بچی کا فراک…
’’ آپ اس سے LGBTQ کا جھنڈا کیوں نہیں بنا لیتیں اور ہمارے خاندان میں کون ایسا بچہ ہے جس کو آپ اس سے بنا ہوا کپڑا پہنائیں گی۔ میں تو اس بچے کی بات سمجھ ہی نہ سکی تھی، آج کل کے بچے بہت ذہین ہیں، ہم مانتے ہیں مگر ہم بھی کیسے گھامڑ ہیں کہ ہمیں کچھ علم ہی نہیں، اس وقت تو میں خاموش رہی مگر بعد میں جب اس ٹرم کو میں نے Google سے پوچھا تو میں ششدر رہ گئی اور اس بچے کی معلومات اور جرات پرحیران۔
اگر آج آپ کے پاس بچوں کے لیے تھوڑا وقت نہیں ہے تو کل کو آپ کے پاس سارا وقت اس پچھتاوے میں گزر جائے گا کہ آپ نے انھیں وقت نہیں دیا اور ان کی اچھی تربیت نہیں کی۔