حماس کا صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں غیر مسلح ہونے کی شق میں ترمیم کا مطالبہ

0 minutes, 0 seconds Read

حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں غیر مسلح ہونے کی شق میں ترمیم کا مطالبہ کردیا ہے۔ حماس اسرائیل کے مکمل انخلا اور رہنماؤں کے اندر یا باہر قتل نہ کیے جانے کی بین الاقوامی ضمانتیں چاہتی ہے، حماس کو جواب دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو یا تین دن درکار ہیں۔

عرب نیوز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے پر حماس نے اعتراضات اٹھائے ہیں اور اس میں بعض شقوں میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق تنظیم کو سب سے زیادہ تحفظات اسلحہ ڈالنے اور رہنماؤں کی بے دخلی سے متعلق شقوں پر ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ حماس کے مذاکرات کاروں نے دوحہ میں ترک، مصری اور قطری حکام سے ملاقات کی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع نے کہا کہ یہ حساس معاملہ ہے اور مزید بتایا کہ تنظیم کو جواب دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو یا تین دن درکار ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حمایت سے سامنے آنے والے امریکی صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے میں جنگ بندی، حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی 72 گھنٹوں کے اندر رہائی، حماس کا غیر مسلح ہونا اور غزہ سے اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا تجویز کیا گیا ہے۔

تاہم فلسطینی ذرائع نے کہا کہ ’حماس غیر مسلح ہونے اور مزاحمتی دھڑوں کے کارکنان کی بے دخلی جیسی کچھ شقوں میں ترمیم چاہتی ہے‘۔


AAJ News Whatsapp

حماس کے رہنما غزہ پٹی سے مکمل اسرائیلی انخلا کے لیے بین الاقوامی ضمانتیں اور اس بات کی یقین دہانی بھی چاہتے ہیں کہ علاقے کے اندر یا باہر کسی قسم کی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوگی۔

گزشتہ ماہ دوحہ میں جنگ بندی کی تجویز پر غور کے لیے منعقد ہونے والے حماس کے اجلاس پر ایک اسرائیلی حملے میں 6 افراد شہید ہوگئے تھے، جس کے بعد گروپ مزید محتاط ہو گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق حماس دیگر علاقائی اور عرب فریقوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہے، تاہم تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

ذرائع کے مطابق حماس کی صفوں میں ٹرمپ کے منصوبے پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ایک دھڑا منصوبے کو بغیر کسی شرط کے قبول کرنے کے حق میں ہے تاکہ ٹرمپ کی ضمانت کے تحت فوری جنگ بندی عمل میں لائی جا سکے، بشرطیکہ ثالث اسرائیل کو منصوبے پر عملدرآمد کے لیے آمادہ کریں۔

دوسرا دھڑا اہم شقوں پر تحفظات رکھتا ہے، خاص طور پر اسلحہ ڈالنے اور فلسطینیوں کی بے دخلی کے معاملے پر۔ یہ دھڑا مشروط معاہدے کا خواہاں ہے جس میں حماس اور مزاحمتی گروپوں کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے تاکہ ”غزہ پر قبضے کو قانونی حیثیت“ نہ ملے اور ”مزاحمت کو جرم“ نہ بنایا جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ دھڑے منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں تاہم بات چیت جاری ہے اور حتمی صورت حال آئندہ چند روز میں واضح ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اسرائیل کی غزہ پر جنگ ختم کرنے کے لیے 20 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا تھا۔

منصوبے کے تحت تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے درجنوں فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے، حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کیا جائے گا، اسرائیلی فوج بتدریج واپس بلائی جائے گی اور غزہ کی حکمرانی کے لیے ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی قائم کی جائے گی۔

منصوبے میں فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے راستے کا ذکر موجود ہے لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی۔

اسرائیلی فوج اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 66 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکی ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، مسلسل بمباری نے اس علاقے کو ناقابلِ رہائش بنا دیا ہے اور اس کے نتیجے میں قحط اور بیماریوں نے جنم لیا ہے۔

Similar Posts