امریکا آنے والے تمام درمیانے اور ہیوی ڈیوٹی ٹرکوں پر 25 فیصد ٹیرف عائد کردیا گیا ہے، ٹرکوں کے امریکا میں داخلے پر ٹیرف یکم نومبر سے لاگو ہوگا۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ دیگر ممالک سے درآمد ہونے والے درمیانے اور بھاری ٹرکوں پر 25 فیصد درآمدی ٹیرف یکم نومبر 2025 سے نافذ کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ اُن کی تجارتی پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد امریکی صنعتوں کو بیرونی مسابقت سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔
امریکی صدر کے اس اعلان سے قبل ڈیٹرائٹ کی بڑی آٹو کمپنیوں نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھرپور لابنگ کی تھی تاکہ مجوزہ ٹیکس کو مؤخر یا نرم کیا جا سکے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ نیا ٹیرف یکم اکتوبر سے نافذ ہوگا تاہم کمپنیوں کی جانب سے ممکنہ اثرات کے حوالے سے اپیلوں کے بعد اس میں تاخیر کر دی گئی۔
صدر ٹرمپ نے پیر کے روز سوشل میڈیا اکاؤنٹ ”ٹروتھ“ پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ “یکم نومبر 2025 سے دیگر ممالک سے امریکا آنے والے تمام درمیانے اور بھاری ٹرکوں پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا۔”

امریکی صدر نے اپنی پوسٹ میں اس فیصلے سے متعلق مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
یہ اعلان امریکی محکمہ تجارت کی جانب سے اپریل میں شروع کی گئی اُس تحقیق سے جڑا ہے جو بھاری ٹرکوں کی درآمدات پر مرکوز ہے۔ یہ تحقیق “ٹریڈ ایکسپینشن ایکٹ” کی دفعہ 232 کے تحت کی جا رہی ہے، جو حکومت کو اُن مصنوعات پر درآمدی ٹیکس لگانے کا اختیار دیتی ہے جو قومی سلامتی کے لیے اہم قرار دی جائیں۔ تحقیقات میں درمیانے اور بھاری ٹرکوں (جن کا وزن 10 ہزار پاؤنڈ سے زائد ہے) اور ان کے پرزہ جات کو شامل کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی مارکیٹ میں درآمد ہونے والے زیادہ تر ٹرک چند غیر ملکی کمپنیوں کے کنٹرول میں ہیں جو “شکاریانہ تجارتی حکمتِ عملیاں” استعمال کر رہی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درمیانے اور بھاری ٹرکوں پر 25 فیصد درآمدی ڈیوٹی کے اعلان کے بعد آٹو انڈسٹری میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صنعت پہلے ہی اسٹیل اور ایلومینیم پر عائد محصولات اور سخت ماحولیاتی ضوابط کے دباؤ میں ہے۔ نئی ڈیوٹیاں شپنگ، تعمیرات اور بلدیاتی خدمات سمیت متعدد شعبوں میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق، اسٹیلانٹس این وی نے امریکی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ میکسیکو میں تیار کیے جانے والے رام پک اپ ٹرکوں پر عائد ممکنہ ٹیرف کو نرم یا ختم کیا جائے تاہم حریف کمپنیوں جنرل موٹرز اور فورڈ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے اسٹیلانٹس کو اُن امریکی ساختہ ٹرکوں پر غیر منصفانہ لاگت کا فائدہ حاصل ہوگا جن میں پہلے ہی درآمدی پرزہ جات شامل ہیں اور وہ ٹیرف کے تابع ہیں۔
دوسری جانب، فیصلے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ نیا ٹیرف مقامی مینوفیکچرنگ کو تقویت دے گا۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اپنے سوشل میڈیا بیان میں کہا تھا کہ یہ اقدام “امریکی ٹرک ساز اداروں کو غیر منصفانہ بیرونی مقابلے سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔”
کوالیشن فار آ پروسپرَس امریکا کے ترجمان نک اییا کوویلا کے مطابق “درآمدی بھاری ٹرکوں پر یہ ٹیرف امریکی کارکنوں اور مینوفیکچررز کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہ اقدام اس اہم صنعتی شعبے کو مضبوط کرے گا اور غیر منصفانہ غیر ملکی مقابلے سے بچائے گا۔”
امریکی محکمہ تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال تقریباً 2 لاکھ 45 ہزار درمیانے اور بھاری ٹرک امریکا میں درآمد کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت 20 ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بڑی کمپنیوں جیسے ڈائملر ٹرک ہولڈنگ اے جی، وولوو گروپ اور پیکار انک کے لیے اہم اثرات رکھتا ہے۔ انٹرنیشنل موٹرز ایل ایل سی جو پہلے نیوِسٹر کہلاتی تھی، درآمدات پر سب سے زیادہ انحصار کرتی ہے، اس کے تقریباً 98 فیصد ٹرک میکسیکو سے درآمد ہوتے ہیں۔ ڈائملر کا انحصار 83 فیصد تک ہے جب کہ پیکار اور وولوو اپنی تقریباً تمام پیداوار امریکا میں ہی کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ نیا اقدام اُن مخصوص صنعتوں پر بڑھتے ہوئے ٹیرف کے سلسلے کا حصہ ہے جنہیں ٹرمپ انتظامیہ ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے نشانہ بنا رہی ہے۔ حکومت پہلے ہی اسٹیل، ایلومینیم، تانبا، گاڑیاں اور گاڑیوں کے پرزہ جات پر ٹیرف عائد کر چکی ہے۔
مزید برآں، لکڑی، کچن کیبنٹس، وینٹیز اور اپھولسٹرڈ لکڑی کی مصنوعات پر اضافی ڈیوٹیاں 14 اکتوبر سے نافذ ہوں گی جب کہ کچھ مصنوعات پر یکم جنوری سے مزید اضافہ متوقع ہے۔
اسی دوران امریکی حکومت کی جانب سے سیکشن 232 کے تحت نئی تحقیقات بھی جاری ہیں، جن میں سولر پینلز، کمرشل طیارے، سیمی کنڈکٹرز، اہم معدنیات، روبوٹکس، میڈیکل ڈیوائسز اور صنعتی مشینری شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ صنعتوں کے لیے مخصوص ٹیرف ٹرمپ انتظامیہ کو مزید لچک فراہم کرتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب بین الاقوامی ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ کے تحت عائد کردہ ملک گیر محصولات کو امریکی وفاقی عدالتوں میں چیلنج کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت 5 نومبر کو طے کر رکھی ہے۔