امریکا کا یوکرین کو ٹوما ہاک میزائل دینے کا فیصلہ، روس اس میزائل کو ’جنگ کی ریڈ لائن‘ کیوں کہتا ہے؟

0 minutes, 0 seconds Read

امریکا نے یوکرین کو ٹوما ہاک میزائل دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ روس یوکرین جنگ کبھی شروع نہیں ہونی چاہیے تھی، یہ جنگ بہت خوفناک رہی ہے۔ جبکہ روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ یوکرین کے امریکا سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوما ہاک میزائل مانگنے کو ”بہت قریب سے“ دیکھ رہا ہے۔ یہ میزائل یوکرین کو روس کے اندر گہرائی میں حملہ کرنے کی صلاحیت دے سکتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یوکرین کے لیے پالیسی میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جنگی پالیسیوں سے مایوس ہیں، حالانکہ اگست میں الاسکا میں دونوں رہنماؤں کی امن ملاقات بھی ہوئی تھی۔

روس کا مؤقف: ’امریکا سرخ لکیر پار کر سکتا ہے‘

روسی ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ اگر امریکا نے یوکرین کو یہ میزائل دیے تو اس سے جنگ کا توازن نہیں بدلے گا، لیکن امریکا ایک خطرناک سرخ لکیر پار کرے گا، جو روس پہلے ہی واضح کر چکا ہے۔

پیسکوف نے سوال اٹھایا کہ ’یہ میزائل چلائے گا کون؟ یوکرینی فوج یا امریکی فوجی؟ ان میزائلوں کے نشانے کا فیصلہ کون کرے گا؟ امریکا یا یوکرین؟‘

روس پہلے بھی خبردار کر چکا ہے کہ اگر مغربی ممالک یوکرین کو ہدف بنانے کے لیے معلومات یا انٹیلی جنس فراہم کرتے ہیں تو یہ براہِ راست جنگ میں مداخلت کے مترادف ہوگا۔

سابق روسی صدر دمتری میدویدیف نے بھی وارننگ دی ہے کہ ایسی مداخلت دنیا کو تباہ کن ہتھیاروں کی جنگ کی طرف لے جا سکتی ہے۔

یوکرین کی درخواست اور امریکا کا ردعمل

یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر نیویارک میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران ٹوما ہاک میزائل دینے کی درخواست کی۔

اس سے قبل صدر جو بائیڈن کی حکومت نے یوکرین کو اجازت نہیں دی تھی کہ وہ امریکی ہتھیار روس کے اندر استعمال کرے، تاکہ کشیدگی نہ بڑھے۔ تاہم اب ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرین کو کچھ مخصوص مواقع پر روس کے اندر حملوں کی اجازت دینا شروع کر دی ہے۔

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے تصدیق کی ہے کہ یوکرین کی درخواست زیرِ غور ہے، اور حتمی فیصلہ صدر ٹرمپ کریں گے۔


AAJ News Whatsapp

ٹوما ہاک میزائل کیا ہیں؟

ٹوما ہاک ایک طویل فاصلے تک مار کرنے والا کروز میزائل ہے جو بحری جہاز، آبدوز یا زمین سے داغا جا سکتا ہے۔

یہ تقریباً 1250 سے 2500 کلومیٹر تک کا ہدف باآسانی نشانہ بنا سکتا ہے۔

یہ میزائل ریڈار سے بچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور زمین کے قریب پرواز کرتے ہیں تاکہ دشمن کو پتا نہ چلے۔

امریکا نے انہیں 1970 کی دہائی سے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔

یوکرین کو ٹوما ہاک میزائل کیوں چاہئیں؟

یوکرین کئی عرصے سے چاہتا ہے کہ اسے ایسے ہتھیار ملیں جو روس کے اندر دور تک مار کر سکیں، لیکن نیٹو کے بیشتر ممالک اس سے گریز کرتے رہے ہیں کیونکہ انہیں بڑی جنگ کے خطرے کا اندیشہ ہے۔

گزشتہ سال امریکا اور برطانیہ نے یوکرین کو کچھ محدود فاصلے تک مار کرنے والے میزائل (جیسے اسٹورم شیڈو اور اے ٹی اے سی ایم ایس) فراہم کیے، لیکن ان کی رینج کم تھی۔

یوکرین نے اپنے مقامی ڈرون میزائل بھی بنائے ہیں، جیسے ”پالیانتیسیا“ اور ”فلیمنگو“، جو سینکڑوں کلومیٹر تک جا سکتے ہیں۔ تاہم یوکرین سمجھتا ہے کہ ٹوما ہاک میزائل حاصل کرنے سے روس پر دباؤ بڑھے گا۔

زیلنسکی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یہ میزائل چاہئیں ضرور ، مگر ضروری نہیں کہ ہم انہیں استعمال کریں۔ اگر ہمارے پاس ہوں، تو یہ پیوٹن پر دباؤ ڈالنے کا مؤثر ذریعہ ہوں گے تاکہ وہ مذاکرات پر آمادہ ہو جائے۔‘

اگر امریکا نے یوکرین کو ٹوما ہاک دے دیے تو روس کیا کرے گا؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے سخت بیانات کے باوجود براہِ راست جنگ شروع ہونے کا امکان کم ہے۔

روس اکثر مغربی ممالک کو ڈرانے کے لیے سخت زبان استعمال کرتا ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ امریکا یا نیٹو سے جنگ اس کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اقوام متحدہ میں کہا تھا کہ ’جو بھی ملک روس کے خلاف جارحیت کرے گا، اسے سخت جواب دیا جائے گا۔‘

تاہم مغربی ممالک نے اب تک روس کے بیانات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔

یورپ کا ردعمل

یورپ فی الحال خاموش ہے، مگر روسی ڈرونز کی مسلسل پروازوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
پولینڈ، ایسٹونیا، ڈنمارک، ناروے، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک نے اپنی فضائی حدود میں روسی ڈرونز کی مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع دی ہے۔

جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا ہے کہ ’یورپ اب جنگ میں نہیں، مگر امن میں بھی نہیں۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ جرمنی اپنے ٹارس میزائل یوکرین کو دینے سے اب بھی گریز کرے گا تاکہ حالات مزید نہ بگڑیں۔

Similar Posts