پشاور پولیس لائنز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز مسعود احمد نے بتایا کہ 8 ستمبر 2025 کو تھانہ مچنی گیٹ کی حدود نزد تلارزئی پل کے قریب اراضیات سے اے ایس آئی صفدر خان کی لاش ملی تھی اور ابتدا میں شبہ تھا کہ اسے ٹارگٹ کیا گیا ہے تاہم سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز، جیوفینسنگ اور دیگر شواہد کے ذریعے وہ قاتل تک پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیجز میں مقتول کی گاڑی کو مختلف مقامات پر دیکھا گیا، جس سے مقتول کی اپنے فلیٹ واقع پہاڑی پورہ سے روانگی اور جائے وقوع تک رسائی کا تعین کیا گیا، ملزم جواد اول گل سکنہ مقدرزئی کو ٹریس کرکے گرفتار کیاگیا تو اس نے دوران تفتیش حقائق اگل دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم ثنا اللہ سکنہ ترناب چارسدہ اور اس نے مل کر صفدرکی جان لی ہے، ثنااللہ اور مقتول صفدر 11سال سے دیرینہ دوست تھے اور ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں، ایک ہی کلاس میں پڑھے اور پولیس میں بھرتی ہوئے۔
ایس ایس پی نے کہا کہ ملزم ثنااللہ کو بھی گرفتار کیا گیا، جس نے پولیس کو بتایا کہ ملزم جواد اور آپس میں گہرے دوست ہیں اور عرصہ تین ماہ سے مقتول صفدر خان اے ایس آئی کے قتل کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ ملزم ثنااللہ کے بھائی عطا اللہ کا رشتہ طے ہوا تھا لیکن کچھ عرصہ بعد اختلافات پیدا ہونے پر رشتہ ٹوٹ گیا کیونکہ سسرال والے زیادہ سونا اور پلاٹ وغیرہ مانگ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم ثنااللہ کو شک تھا کہ اس کا مقتول دوست صفدرکے مخالفین کا ساتھ ملا ہوا ہے، جس سے جان کا خطرہ ہے اس لیے صفدر کو وقوع کے روز اس بہانے پر لے جایاگیا کہ منشیات کے خلاف کارورائی کرنی ہے اور وہاں دونوں نے مل کر اسے گولیاں ماریں۔
ایس ایس پی نے کہا کہ پولیس نے ملزموں سے آلہ قتل بھی برآمد کرلیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم ثنا اللہ مقتول کے جنازے میں بھی شریک رہا اور تفتیشی افسران کو بھی گمراہ کرتا رہا۔
پریس کانفرنس کے دوران ایس ایس پی آپریشنز مسعود احمد نے بتایا کہ صنم جاوید اغوا کیس کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے اور سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی چھان بین جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پشاور میں آس پاس کے اضلاع سے بھی جرائم پیشہ افراد آکر یہاں وارداتیں کرتے ہیں تاہم اس کے باوجود گزشتہ چند ماہ میں 300 سے زائد راہزنوں کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا جبکہ غیر اخلاقی ویڈیوز اور فحاشی پھیلانے والے افراد کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں۔