سوئم، پارٹی کی موجودہ لیڈر شپ کیونکہ سیاسی طور پر تقسیم ہے اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو یہ ٹکراؤ مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔چہارم، بانی پی ٹی آئی اور ان کا حامی دھڑا اسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیے پر کھڑا ہے جب کہ پارٹی میں ایک بڑا دھڑا اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت چاہتا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے اس وقت اپنی بہن علیمہ خان کو ہی اپنی سیاست کا ترجمان بنایا ہوا ہے اور وہی ان کا سیاسی موقف میڈیا کے سامنے پیش کررہی ہیں۔علیمہ خان باہر بیٹھی سیاسی قیادت کے مقابلے میں زیادہ سرگرم اور فعال نظر آتی ہیں اور پارٹی کی سطح پر ان کی پذیرائی بھی شامل ہے۔
حالیہ دنوں میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور علیمہ خان کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ علی امین گنڈا پور نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرکے پارٹی کے داخلی بحران کی ساری ذمے داری علیمہ خان پر ڈالی ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہیں اور پارٹی کی قیادت پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں جو نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
جب کہ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی لیڈرزکو اسٹیبلیشمنٹ سے رابطے ختم کرنے کا پیغام دیا ہے۔ان کے بقول اگر کوئی ان سے رابطہ کرے تو ان کا موقف یہ ہونا چاہیے کہ بات چیت براہ راست بانی پی ٹی آئی سے کی جائے۔ بانی پی ٹی آئی کو اس بات کا گلہ ہے کہ اب تک جن بھی لوگوں نے اسٹیبلیشمنٹ سے رابطے کیے ہیں ان سے انھیں کوئی ریلیف نہیں مل سکا اور نہ ہی پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دیا جارہا ہے تو ایسے میں پس پردہ رابطوں کا کوئی فائدہ نہیں ۔
پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی قیادت کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو چھوڑیں، وہ جیلوں میں قید رہنماؤں میں سے کسی کو بھی قانونی ریلیف نہیں دلوا سکے۔ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت لاہور کی جیل میں قید اہم راہنماؤں سے ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں کرتی اور دیگر جیلوں میں بند اسیران سے بھی کوئی ملنے کے لیے تیار نہیں ۔ موجودہ قیادت نہ تو پارٹی کو منظم کرسکی ،نہ کوئی بڑی عوامی تحریک چلاسکی اور نہ ہی پارٹی کے لیے کوئی سیاسی راستہ نکال سکی ۔ بلکہ سب ہی ایک دوسرے کے خلاف لنگوٹ کس کر میدان میں موجود ہیں ۔پشاور کے حالیہ جلسہ میں علی امین گنڈا پور کے خلاف جو کچھ ہوا، وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ بیرسٹر گوہر نے علیمہ خان پر علی امین گنڈا پور کے تمام الزامات کی تردید کی ہے ۔
پی ٹی آئی کی موجودہ پارلیمانی اور باہر بیٹھی قیادت کے بقول بانی پی ٹی آئی کے سخت بیانات اور ان پر الزامات کی سیاست کی وجہ سے مفاہمت کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔ اس طبقہ کے بقول اگر بانی پی ٹی آئی کوئی متبادل بیانیہ بنائیں اور تنقید کو حکومت تک محدود رکھیں تو ہمیں کسی نہ کسی سطح پر ریلیف مل سکتا ہے۔
ایک گروپ حکومت سے مذاکرات کا حامی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ کن ایشوز پر معاملات طے کر سکتی ہے۔ مقدمات کے حوالے سے حکومت کوئی ریلیف نہیں دے سکتی ہے ۔ ایسے میں بانی اور اسیر لیڈروں کو کیا فائدہ ۔ پی ٹی آئی کے پارلیمانی گروپ کی مزاحمتی سیاست میں ناکامی اور کسی بڑی احتجاجی تحریک کو پیدا نہ کرنا ، پارٹی کے لیے اور زیادہ مشکلات پیدا کر رہے ہیں ۔