کرشن نے کہا ارجن سے
ناپیار بڑھا دشمن سے
یدھ کر یدھ کر
کل ملا کر بات یہ بنی کہ دنیا میں اس وقت جو جنگیں ہورہی ہیں امن کے لیے ہورہی ہیں یہ جو مخبر یہودی دھڑا دھڑ ہتھیار بنارہے ہیں اور مسلمان ممالک میں پہنچا رہے ہیں اور یہ طرح طرح کے امن بردار ایٹم بم، ہائیڈروجن بمجراثیمی بم اور دور مار ہتھیار بنائے جارہے ہیں سب کے سب’’امن‘‘ کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔
جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس نیک کام کی ابتدا قابیل نامی ایک سائنس دان نے کی تھی، اس نے ہابیل کو مار کر جو امن قائم کیا تھا وہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے کیونکہ ہابیل کو مارنے کے بعد اسی کی اولاد زندہ و پایندہ اور برائے امن پایندہ رہی، اس سلسلے میں ایک’’بلی‘‘ کا بھی نام لیا جارہا ہے یہ غالباً وہی بلی تھی جس نے اپنا ’’اسکور‘‘ مکمل کرکے ’’حاجن‘‘ بننے کا ارادہ کر لیا تھا۔
اس نے اپنے کیرئیر کی ابتدا وہاں سے کی تھی جہاں دو چڑیاں آپس میں لڑرہی تھی لیکن بلی نے مداخلت کرکے دونوں کو کھا لیا اور خود کو شاباش دیتے ہوئے کہا۔اچھا ہوا کہ میں بروقت پہنچ گئی ورنہ یہ دونوں تو لڑلڑکر ایک دوسرے کی جان لے لیتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ جو ہمارا’’ٹرمپ‘‘ ہے اس نے یا اس کے اجداد میں کسی نے’’اسی بلی‘‘ کا یا اس کی کسی بیٹی پوتی کا دودھ پیا ہوگا۔کیونکہ آج کل کم سے کم پاکستان میں یہ بات چل رہی ہے کہ ٹرمپ دنیا میں’’امن‘‘ قائم کرنا چاہتا ہے اور کرکے رہے گا، یہاں تک کہ ہمارے حکمرانوں نے بھی کہا ہے کہ ٹرمپ ساری دنیا میں ’’امن‘‘ قائم کرے گا۔اور ظاہر ہے کہ جب ہمارے حکمرانوں نے بھی کہہ دیا ہے تو سارے دانشوروں نے بھی اپنی اپنی ’’ٹارچیں‘‘ لے کر ٹرمپ پر فوکس کردیا ہے۔
سب لوگ جدھر’’وہ‘‘ ہے ادھر دیکھ رہے ہیں ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں۔اب ہمارے ذہن میں امن قائم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے سارے فساد کی جڑ یہ انسان ہی ہے اور اگر اسے ختم کردیا جائے تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔اور امریکا ایسا کرسکتا ہے کیونکہ اس نے’’امن‘‘ کے لیے جتنے ایٹمی ہتھیار جمع کرلیے ہیں ان سے ایسی چار پانچ زمینوں کو ’’صاف‘‘ کیا جا سکتا ہے۔لیکن اس سے وہ مسئلہ پیدا ہوجائے گا جو ایک انڈین فلم میں پیدا ہوا تھا۔اس فلم میں سابق اور ریٹائرڈ بدمعاش مجبوراً دوبارہ متحرک ہوجاتا ہے جو اس کے پولیس والے بیٹے کو ایک اور گینگ نے قتل کرنے کی کوشش کی اور کررہا تھا۔
یہ سابق بدمعاش اس گینگ میں شامل ہوجاتا ہے اور گینگ کی جڑیں کاٹنے لگتا ہے آخری معرکے میں وہ خود کو ظاہر کرکے گینگ کا صفایا کرتا ہے، گولیوں کے درمیان ایک معمولی سا ولن بدمعاش سردار والی کرسی کے پیچھے چھپ چکا ہے وہ آہستہ آہستہ سر اٹھا کر سامنے آتا ہے اور کانپتے ہوئے ہاتھ جوڑتا ہے لیکن ہیرو سارے گینگ کو ٹھکانے والا اسے کہتا ہے گھبراؤ نہیں میں تجھے نہیں ماروں گا اور سردار کی کرسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اس کرسی پر بیٹھ کر ’’راج‘‘ کرو۔ وہ ولن بدمعاش کہتا ہے راج کروں ؟ مگرکس پر؟میں نے بھی جو نسخہ بتایا ہے دنیا میں’’امن‘‘ قائم کرنے کا۔یعنی امریکا نے’’امن‘‘ کے لیے جن ہتھیاروں کا اسٹاک لگایا ہوا ہے ان سب کو ’’فتیلہ‘‘ دکھانے کا ۔تو اس سے بھی وہی مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے کہ راج کروں ؟ مگر کس پر؟۔ اس سے دو باتیں ہوں گی یا تو ڈر کے مارے کوئی دوسرے پر ہتھیار استعمال نہیں کرے گا اور یا سب ہی ایک دوسرے پر ہتھیار استعمال کرکے شانت کردیں گے اور ساری دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔اف یو وانٹ پیس ۔