یہ طالبان کے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی طالبان رہنما کا بھارت کا پہلا باضابطہ دورہ ہے، جسے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق افغان وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ امیر خان متقی بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور دیگر اعلیٰ حکام سے سیاسی، اقتصادی اور تجارتی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امیر متقی نے حال ہی میں ماسکو میں ایک علاقائی اجلاس میں شرکت کی تھی، جس میں پاکستان، ایران، چین اور وسطی ایشیائی ممالک سمیت افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک نے حصہ لیا تھا۔
اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں خطے میں کسی بھی غیر ملکی فوجی اڈے کے قیام کی مخالفت کی گئی تھی، جسے مبصرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس خواہش کے جواب کے طور پر دیکھا کہ وہ بگرام فوجی اڈے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ابھی تک روس واحد ملک ہے جس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ تاریخی طور پر بھارت اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے، مگر 2021 میں امریکا کے انخلا اور طالبان کی واپسی کے بعد نئی دہلی نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔ ایک سال بعد، بھارت نے تجارت، طبی امداد اور انسانی ہمدردی کے کاموں کے لیے ایک محدود سفارتی مشن دوبارہ قائم کیا۔
اگرچہ بھارت نے اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا، تاہم دونوں ممالک کے درمیان سفارتی رابطے اور عملی مذاکرات بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق، امیر خان متقی کا یہ دورہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ان پر عائد سفری پابندی میں عارضی نرمی کے بعد ممکن ہوا ہے تاکہ وہ عالمی سطح پر روابط بڑھا سکیں۔
طالبان وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق، ملاقاتوں کے دوران باہمی تعاون، تجارت، خشک میوہ جات کی برآمد، صحت کے شعبے کی سہولیات اور بندرگاہوں کے استعمال سے متعلق امور پر بات چیت کی جائے گی۔