اب میں یہ ہیلمٹ اور اسٹیل کی جیکٹ اُتار سکتا ہوں؛ امن معاہدے کے بعد غزہ کے صحافی خوشی سے نہال

غزہ میں سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں معصوم شہری شہید ہوئے، وہیں سامنے موت کی براہ راست کوریج کرنے والے متعدد دلیر صحافیوں نے بھی غزہ کی خوفناک صورت حال دنیا کو دکھاتے ہوئے اپنی جان کی نذرانے پیش کیے ہیں۔

اب غزہ امن مذاکرات کی کامیابی کے بعد شہریوں سمیت صحافیوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے۔

فلسطینی فوٹوگرافر انس ایاد کی جانب سے جاری کی گئی ایک ویڈیو کلپ نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے، جس میں صحافی صالح الجعفراوی اور دیگر افراد کو صحافتی جیکٹس پہنے ہوئے شمالی غزہ کی تاریک گلیوں میں گھومتے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ ویڈیو اس وقت کی ہے جب علاقے میں مکمل بلیک آؤٹ تھا، اور یہ صحافی غزہ کی سڑکوں پر غزہ جنگ بندی معاہدے کی کامیابی کی خبر دے رہے تھے۔

ویڈیو میں صحافیوں کو گلیوں میں چلتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، جو بلند آواز میں اعلان کر رہے ہیں کہ فریقین کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ ان کا مقصد شہریوں کو فوری طور پر اس پیش رفت سے آگاہ کرنا تھا، تاکہ وہ جان سکیں کہ بمباری اور گولہ باری کا سلسلہ رک چکا ہے۔


AAJ News Whatsapp

الجزیرہ کے ایک صحافی کے الفاظ تھے کہ، “اب میں یہ ہیلمٹ اور اسٹیل کی جیکٹ اتارسکتا ہوں جو میں نے بمباری سے بچنے کے لیے دو سال سے پہنی ہوئی ہے۔ مجھے اب مرنے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں، میں اس تاریخی لمحے کو آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

مذکورہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے، اور اسے دنیا بھر میں صحافت کے میدان میں جرات، جذبے اور ذمہ داری کی ایک لازوال مثال کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔

الجزیرہ کی جانب سے گزشتہ دو برسوں کے دوران صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والے فلسطینی شہید صحافیوں کے سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں غزہ جنگ کو صحافیوں کے لئے گزشتہ ڈیڑھ صدی سے زائد عرصے کی مہلک ترین جنگ قرار دیا گیا ہے۔

غزہ جنگ صحافیوں کے لیے ڈیڑھ صدی کی مہلک ترین جنگ ثابت ہوئی ہے۔ غزہ میں شہید صحافیوں کی تعداد گزشتہ 160 برسوں میں آٹھ بڑی جنگوں میں مارے جانے والے صحافیوں کی تعداد سے تجاوز کر گئی ہے، ہر تین دن میں ایک صحافی کو شہید کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں غزہ کے اندر صحافیوں کے قتل عام کو اپنی نوعیت میں تاریخ کا بدترین قتل عام قرار دیا گیا ہے لیکن غزہ کے صحافی بہیمانہ جرائم اور قتل عام کے باوجود دنیا کی آنکھ اور کان بنے ہوئے ہیں۔

امریکی یونیورسٹی براؤن کی تحقیق کے مطابق صحافی شہدا کی تعداد امریکی خانہ جنگی پہلی اور دوسری عالمی جنگوں، کوریا، ویتنام، یوگوسلاویہ، افغانستان میں جنگ اور خون خرابے کے دوران مارے گئے صحافیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ غزہ میں نسل کشی کے دوران دو سو چون صحافی شہید ہوئے تقریباً ہر تین دن میں ایک صحافی کو شہید کیا گیا تھا۔

Similar Posts