اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی سے جزوی طور پر اپنی فوجیں واپس بلانے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ فیصلہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے حالیہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے بعد سامنے آیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’سیاسی قیادت کی ہدایت اور تازہ صورتحال کے جائزے کے مطابق آئی ڈی ایف نے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے عملی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔‘
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے غزہ امن منصوبے کے ’’پہلے مرحلے‘‘ پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ منصوبہ دو سال سے جاری جنگ میں سب سے بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا، ’اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام یرغمالیوں کو بہت جلد رہا کر دیا جائے گا، اور اسرائیل اپنے فوجی ایک طے شدہ حد تک واپس بلا لے گا۔ یہ سب ایک مضبوط، پائیدار اور دائمی امن کی طرف پہلا قدم ہے۔ تمام فریقوں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔‘
منصوبے کے تحت حماس آئندہ چند دنوں میں اپنے قبضے میں موجود 20 زندہ یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جب کہ اس کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج غزہ کے زیادہ تر علاقوں سے انخلا شروع کرے گی۔
غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر حماس اور اسرائیل کی جانب سے دستخط کے بعد آئی ڈی ایف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’فوج اپنے دستوں کو قریبی مدت میں نئی تعیناتی لائنوں پر منتقل کرنے کے لیے تیار کر رہی ہے۔‘
حماس اسرائیل غزہ امن معاہدے پر دستخط سے قبل ٹرمپ کو اچانک کیا خفیہ پیغام ملا؟
ترجمان نے مزید کہا کہ ’غزہ میں ہماری فورسز اب بھی تعینات ہیں اور کسی بھی ممکنہ صورتحال یا آپریشنل تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔‘
یہ اقدام جنگ بندی معاہدے کے ابتدائی مرحلے کا حصہ ہے، جس کے تحت یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کی جزوی واپسی شامل ہے۔
غزہ امن معاہدے پر دستخط: اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ کب شروع ہوگا؟
تاہم فوجی حکام نے واضح کیا ہے کہ فوجی انخلا مکمل نہیں ہوگا بلکہ دستوں کی پوزیشنوں میں ’’عملی ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی جائے گی تاکہ زمینی کنٹرول اور سیکورٹی صورتِ حال پر نظر رکھی جا سکے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق فوجی کمانڈروں نے غزہ کے متعدد علاقوں میں ہنگامی منصوبے تیار کر لیے ہیں، جن کے تحت فوجی قافلے مخصوص لائنوں تک واپس آئیں گے، مگر فضائی نگرانی اور انٹیلیجنس آپریشنز بدستور جاری رہیں گے۔