انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے موبائل فون اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم تو بند ہوئے ہی اس کے ساتھ ہی لینڈ لائن ٹیلی فون کی سروس بھی معطل ہوگئی۔ یوں بینکنگ سروس سے لے کر ہوائی سفر بھی معطل ہوا۔ اس سے پہلے 16 ستمبر کو بلخ صوبہ کے ترجمان عطاء اللہ زید نے یہ اعلان کیا تھا کہ شمالی صوبہ میں انٹرنیٹ سروس اب معطل رہے گی۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے رپورٹر نے یہ خبر دی تھی کہ پہلے مرحلے میں بدخشاں، تاخر Takhar ، قندھار اور ہلمند صوبوں میں انٹرنیٹ معطل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا پھر شوریٰ نے یہ محسوس کیا کہ اس شیطانی چرغہ کو پورے ملک میں بند کردیا جائے۔ انٹرنیٹ کی بندش سے کابل سمیت افغانستان بھرکا فلائیٹ آپریشن معطل ہوا۔
کراچی میں مقیم ایک پاکستانی صحافی کی رپورٹ کے مطابق کابل ایئرپورٹ سے دبئی، استنبول، ماسکو، دہلی اور جدہ جانے والی پروازیں معطل ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان کے مختلف شہروں میں قندھار، مزار شریف اور ہرات کے ایئرپورٹ عملی طور پر بند ہوگئے۔ انٹرنیٹ بند ہونے سے پورے افغانستان میں بینکنگ سروس، Online Education سروس بھی معطل ہوئی، پھر 48گھنٹوں بعد انٹرنیٹ سروس کی بحالی کا فیصلہ ہوا۔ امریکی فوج نے کروڑوں ڈالر کے سرمائے سے پورے افغانستان میں انٹرنیٹ سروس کے کیبلز بچھائے تھے۔
طالبان حکومت نے فحاشی اور عریانی روکنے کے نام پر گزشتہ مہینے خواتین کی تحریر کردہ کتابوں کی یونیورسٹیوں میں تدریس کے لیے استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ طالبان حکومت کے اس فیصلہ کے تحت خواتین کی تحریر کردہ 140 کتابوں پر پابندی عائد کی گئی۔ ان کتابوں میں Safety in the Chemical Laboratoryکے عنوان سے شایع ہونے والی کتاب بھی شامل ہے۔
افغانستان سے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان شوریٰ کے مفکرین نے 680 کتابوں کی نشاندہی کی ہے جن میں شریعت کے خلاف مواد ہونے کے امکانات ہیں۔ ان میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ ان میں طالبان حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مواد ہے۔ حکومت نے یونیورسٹیوں کے حکام کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل 18 مضامین شریعت کے احکامات کے خلاف ہیں، اس بناء پر ان مضامین کی اب تدریس نہیں ہوگی، ان مضامین میں سائنس اور سماجی علوم کے موضوعات شامل ہیں۔
طالبان کو بینک سائنس کے مضامین میں نظریہ ارتقاء اور انسانی حقوق، جینڈر ڈیولپمنٹ اور Role of Women in Communication and Women in Societyشامل ہیں۔ طالبان حکومت کے اعلیٰ تعلیم کی وزارت کے ڈپٹی اکیڈمک ڈائریکٹر ضیاء الرحمن عروبی نے یونیورسٹیوں کے حکام کو ایک خط میں بتایا ہے کہ یہ مذہبی اسکالرز اور ماہرین کے ایک پینل نے کہا ہے کہ جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں ایرانی اسکالرز کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے اس پینل میں شامل ایک ماہر نے برطانوی خبررساں ایجنسی کے نامہ نگارکو افغانستان میں ایرانی کلچر کو روکنے کے لیے ایرانی مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
کابل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے حکومت کے اس فیصلے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اب یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو ان کتابوں کی جگہ مواد تیار کرنا ہوگا، مگر سوال یہ ہے کہ یہ مواد کس معیارکا ہوگا۔ جب سے طالبان حکومت برسر اقتدار آئی ہے، اس کا نشانہ خواتین اور اقلیتیں ہیں۔ خواتین کے لیے اسکول،کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ اب انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے جو طالبات Online تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھیں، اب ان کے لیے یہ دروازہ بھی بند کردیا گیا ہے۔
افغانستان کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ افغانستان کی کل آبادی کے بارے میں حقیقی اعداد و شمار نہیں ہیں مگر آبادی کے بارے میں تحقیق کرنے والے ماہرین کے اندازہ کے مطابق افغانستان کی آبادی 36.4 ملین سے لے کر 49 ملین کے درمیان ہے۔ امریکا کے شماریات بیوروکا کہنا ہے کہ افغانستان کی آبادی اس سال بڑھ کر 49.5 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ افغانستان میں غربت انتہا تک پھیلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آبادی کا دو تہائی حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، یوں آبادی کا 64.9 فیصد حصہ غربت کے نیچے ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کا اندازہ ہے کہ افغانستان میں 15 سے 24 سال کی عمر کے لوگوں میں خواندگی کا تناسب 47 فیصد کے قریب ہے مگر مجموعی طور پر خواندگی کا تناسب 37.3 فیصد ہے اور خواتین میں یہ تناسب 22.6 فیصد کے قریب ہے۔ اس صورتحال میں افغانستان خوراک کی کمی کے شدید بحران میں مبتلا ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی آدھی آبادی کو روزانہ کھانا نہیں مل پاتا۔ UN World Food Program کے امدادی پروگرام کی بناء پر بھوک سے اموات نہیں ہورہی ہیں۔ افغانستان میں گزشتہ مہینہ خوفناک زلزلہ آیا۔ اس زلزلے میں 2 ہزار 200 کے قریب اموات ہوئیں اور تقریباً 3 ہزار 600 افراد زخمی ہوئے۔ سڑکوں کے ٹوٹنے اور مواصلات کے ذرایع مخدوش ہونے کی بناء پر امدادی جماعتیں بہت دیر سے متاثرہ علاقوں تک پہنچیں اور بہت سے زخمی فوری طور پر اسپتالوں تک نہ پہنچنے کی بناء پر موت کے منہ میں چلے گئے۔
ایک طرف افغانستان میں تباہی ہے تو دوسری طرف افغان حکومت تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے جنگجوؤں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان جنگجوؤں نے خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں اور یہ پورا علاقہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو افغان حکومت کے نظریاتی اتحادی ہیں۔
ٹی ٹی پی کے جنگجو پختون خوا میں ویسی ہی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں جیسی شریعت افغانستان میں طالبان نے نافذ کی ہے اگرچہ افغانستان کے پڑوسی ممالک روس، چین، ایران اور پاکستان کے وزراء خارجہ کے ایک اعلامیہ میں افغانستان کی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے علاقے میں ان دہشت گردوں کو کنٹرول کرے اور اس امرکو یقینی بنایا جائے کہ سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی نہ ہو مگر محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان کی حکومت ان پڑوسیوں کی بات سننے کو تیار نہیں ہے، یوں حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ نے افغانستان پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، ان پابندیوں سے افغانستان میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں اس بناء پر یہ پابندیاں ختم ہونی چاہئیں اور افغانستان کے منجمد اثاثے بحال ہونے چاہئیں۔
اقوام متحدہ نے یہ پابندیاں خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم کرنے، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے اور دہشت گردوں کی سرپرستی کی بناء پر عائد کی ہیں مگر افغانستان کی حکومت خواتین کو برابر کے حقوق دینے اور اقلیتی فرقوں کے افراد کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کے بجائے مزید ایسے اقدامات کر رہی ہے جن سے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان افغانستان کو 2ہزار سال پیچھے لے جانے کے لیے پالیسیاں بنا رہے ہیں، جو لوگ اب بھی طالبان حکومت سے اچھی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، انھیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، اگر دائیں بازو کی جماعتیں طالبان کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کے لیے قائل کرسکیں تو یہ افغانستان کے عوام پر بڑا احسان ہوگا اور پورے خطے میں سکون و امن آجائے گا۔