دنیا بھر میں 2025 کے نوبل امن انعام کا اعلان ایک تاریخی لمحہ سمجھا جا رہا ہے، لیکن وینزویلا کی اپوزیشن لیڈر ماریا کورینا مشاڈو کو ملنے والے اس انعام نے جشن کے ساتھ ساتھ ایک تنازع کو بھی جنم دیا ہے۔ اور اس پر ہونے والی تنقید اس انعام کو رواں سال کے سب سے متنازع عالمی فیصلوں میں سے ایک بنا چکی ہے۔
ناروے کی نوبل کمیٹی نے مشاڈو کو یہ اعزاز ”وینزویلا میں جمہوری حقوق کے فروغ اور آمریت سے امن و انصاف پر مبنی تبدیلی کی جدوجہد“ کے اعتراف میں دیا۔ مگر ان کے ماضی کے سیاسی تعلقات اور بیانات نے اس فیصلے پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
مشاڈو پر الزام ہے کہ وہ یورپ میں دائیں بازو کی سیاسی تحریکوں اور امریکا کے سخت گیر حلقوں کے قریب ہیں۔ ان پر یہ بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ وینزویلا کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں اور بیرونی دباؤ کی حامی ہیں، جو بظاہر ”امن“ کے فلسفے سے متصادم ہے۔
اس فیصلے پر سب سے سخت ردعمل امریکی مسلم سول رائٹس تنظیم ”کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز“ (CAIR) کی جانب سے آیا۔ تنظیم نے نوبل کمیٹی سے انعام واپس لینے کا مطالبہ کیا، اور الزام لگایا کہ مشاڈو نے اسرائیل کی انتہاپسند ”لیکوِڈ پارٹی“ اور یورپی فاشسٹ سیاستدانوں کی حمایت کی ہے۔
تنظیم کے مطابق، مشاڈو نے ایک ایسی کانفرنس میں تقریر کی تھی جہاں مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف تاریخی ”ریکونکِستا“ کی طرز پر ”یورپ کو پاک کرنے“ جیسے بیانات دیے گئے۔
دوسری جانب، وینزویلا کی حکومت اور اس کی حامی جماعتوں نے اس فیصلے کو ”شرمناک“ قرار دیا ہے۔ وینزویلا نیشنل اسمبلی کے رکن ویلیان روڈریگز نے کہا کہ ’یہ انعام اس خاتون کو دینا جو سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں ملوث رہی ہے، خود امن کے تصور کی توہین ہے۔‘
تنازع اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب اسپین کے سابق نائب وزیرِاعظم پابلو اِگلسیاس نے طنزیہ انداز میں کہا: ’اگر نوبل امن انعام مشاڈو کو دیا جا سکتا ہے، تو پھر اگلا انعام ٹرمپ، پوتن یا یہاں تک کہ ہٹلر کو بھی دیا جا سکتا ہے۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو سات جنگیں رکوانے کا کارنامہ اپنے سر لیتے ہیں اور نوبل انعام کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، انہوں نے مشاڈو کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ واقعی اس انعام کی حقدار ہیں‘۔ لیکن ساتھ ہی نوبل کمیٹی پر تنقید بھی کی۔
وہائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار کے مطابق، ٹرمپ نے کہا کہ ’نوبل کمیٹی نے امن کے بجائے سیاست کو ترجیح دی۔‘
ٹرمپ کے مطابق، انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے جو کردار ادا کیا، وہی اصل امن کی کوشش ہے۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر لکھا: ’میں امن کا سفیر ہوں، پہاڑوں کو اپنی خواہش سے ہلا سکتا ہوں۔‘
امریکی صدر کے حامیوں نے تکرار کی کہ اصل میں امن کا اصل چہرہ ٹرمپ ہیں۔
ادھر مشاڈو نے بھی اپنے بیان میں ٹرمپ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ انعام وینزویلا کے مظلوم عوام اور صدر ٹرمپ کے نام کرتی ہوں، جنہوں نے ہماری جمہوریت کی لڑائی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔‘
دوسری جانب ناروے میں واقع نوبل کمیٹی کا کہنا ہے کہ فیصلہ مکمل غیرجانبدارانہ ہے۔ کمیٹی کے مطابق، مشاڈو نے ’بہادری کے ساتھ غیر مسلح سیاسی جدوجہد کے ذریعے وینزویلا میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے تاریخی خدمات انجام دی ہیں۔‘
ایک پریس کانفرنس کے دوران رپورٹر نے پوچھا کہ صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کیوں نہیں دیا گیا؟
تو اس پر نوبل کمیٹی کے چیئرمین نے جواب دیا کہ یہ انعام صرف اُن لوگوں کو دیا جاتا ہے جو حقیقی حوصلے اور دیانت داری کا مظاہرہ کریں۔
ماریا مشاڈو کا یہ انعام ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب وینزویلا میں بدستور سیاسی کشیدگی اور معاشی بحران جاری ہے، جبکہ لاکھوں وینزویلین تارکینِ وطن امریکا اور لاطینی امریکا کے دیگر ممالک میں مشکلات کا شکار ہیں۔
اگرچہ ابھی مشاڈو کے اس اعزاز سے وینزویلا کے عوام کے حالات میں فوری بہتری کی توقع نہیں، لیکن یہ واقعہ نوبل کمیٹی کے فیصلوں پر ایک نئی بحث چھیڑ چکا ہے کہ کیا امن کا مطلب صرف آمریت کے خلاف جدوجہد ہے، یا اس میں انصاف اور غیرجانبداری بھی شامل ہے؟