بویوک چاملی جہ ایشیائی استنبول کی سب سے اونچی پہاڑی ہے جس کے گرد چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ ہیں جہاں تھک کر بیٹھ جانے والوں کو سہارا، پانی اور چائے ملتی ہے۔ ہوٹل والے چائے کے پیالے تو دھو کر دوبارہ استعمال کر لیتے ہیں۔ لیکن پانی کی خالی بوتلوں کا انھوں نے ایک دل چسپ استعمال نکالا ہے۔
یہ لوگ ان بوتلوں کو کھیرے کی طرح عین درمیان سے کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کر کے انھیں دو منے منے گملوں میں بدل دیتے ہیں جنھیں اوپر جانے والی ریلنگ کے ساتھ باندھ کر ان میں وہ چھوٹے چھوٹے پھول کاشت کر دیے جاتے ہیں جو صرف اس پہاڑی پر بہار دکھاتے ہیں۔ ان پھولوں نے تھکن میں حوصلہ دیا اور دیوسائی کے میدان یاد دلائے۔
یہ دنیا کے سب سے اونچے میدان ہیں جن میں اگنے والے پھول دنیا کے کسی اور حصے میں جڑ نہیں پکڑتے۔
استنبول میں بہت سی پہاڑیاں ہیں لیکن یہ پہاڑی خاص ہے جس سے ایشیائی ہو یا یورپی، ہر استنبول کے مناظر دور تک دکھائی دیتے ہیں۔ شہر کے دونوں حصوں میں اس کے سوا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سے اس کے در کا ساحلی علاقہ، قاضی کوے (Kadiky) اور اس کا گرد و نواح، اناطولیہ اور اس کی سبز پہاڑیاں، یورپ میں آبنائے باسفورس، 15 جولائی کے شہیدوں کا پل، سلطان محمد فاتح کا پل، ایوپ سلطان، نیلی مسجد اور آیا صوفیا سمیت بہت سے دوسرے علاقے۔ مطلع اگر صاف ہو تو بحیرہ اسود بھی دکھائی دے جاتا ہے۔
کیا ہم یہاں صرف یہی دیکھنے آئے تھے؟ میں تو بالکل نہیں۔ صبح ناشتے پر ڈاکٹر خلیل طوقار سے میں کہیں کہہ بیٹھا کہ اتنے دن سے میں تاریخ کے مد و جزر میں ڈبکیاں کھا رہا ہوں، کوئی داستان محبت بھی تو سنائیں۔ اس شہر کا کوئی تو ہیر رانجھا ہو گا، کوئی تو سوہنی مہینوال ہو گا؟
یہ میری شرارت تھی، تھکن تھی یا پتہ نہیں کیا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب یہ بات سن کر سوچ میں پڑ گئے۔ کچھ دیر کے بعد اٹھے اور اپنے کمرے میں غائب ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد نکلے تو کسی کوہ پیما کی طرح مسلح تھے۔ ان کے اسلحہ خانے میں جمع ہتھیاروں میں کچھ ہتھیار میرے حصے میں بھی آئے اور ہم اللہ کا نام لے کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔
پہاڑی پر چڑھنے کے بعد ہمارا پہلا پڑاؤ مختصر سا ایک ریسٹورنٹ تھا جہاں ہماری نشستیں فوارے کے قریب تھیں۔ عثمانی تہذیب میں فوارہ بڑی اسٹرٹیجک اہمیت رکھتا ہے۔ توپ کاپی محل ہو یا دیگر محلات اور دفاتر، ان میں فوارہ ضرور ہوتا تھا۔
سلطان، ملکائیں اور دیگر سرکاری حکام ہر اہم بات اسی فوارے کے قریب بیٹھ کر کیا کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ اس عادت کی وجہ سے وہ ذہن کو سکون بخشنے والی پانی کی قل قل سے بھی لطف اندوز ہوتے ہوں لیکن اس اہتمام کی اصل وجہ راز داری تھی۔ پانی گرنے کی آواز کی وجہ سے اس جگہ کی جانے والی بات محفوظ رہتی تھی، دشمنوں یا جاسوسوں تک نہیں پہنچ پاتی تھی۔
ہم تادیر وہاں بیٹھے اور ڈھیروں باتیں کیں لیکن ان میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہ تھی جسے چھپانے کی ضرورت ہوتی لیکن اس کے باوجود اس جگہ سے اٹھنے کی خواہش مجھ میں تھی اور نہ ڈاکٹر صاحب میں۔
باتیں کرتے کرتے ڈاکٹر صاحب نے دھیمے سے کھنگار کر گلا صاف کیا اور کہا کہ وہ ایک کنیز تھی۔
‘ کون کنیز تھی۔’
ان کا جملہ سن کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا لیکن خاموش رہا۔
ڈاکٹر صاحب نے بات جاری رکھی۔
‘ یہ پرانے وقتوں کی بات ہے جب یہاں عثمانی سلاطین کا سکہ چلتا تھا۔ وہ ایک کنیز تھی جس پر شہزادہ عاشق ہو گیا تھا۔ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ وہ دونوں محل میں مل پاتے، اس لیے وہ یہاں آ جاتے۔’
ڈاکٹر صاحب نے نیچے اشارہ کیا۔ ہم چلتے چلتے ریسٹورنٹ سے باہر اونچی چٹان کے کنارے پر پہنچ چکے تھے۔ اس چٹان کے نیچے گہرائی میں درخت ایسے تھے کہ دن میں بھی رات کا سماں ہوتا ہے۔ پرندے ہوتے ہیں اور ان کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ ان کی چہچہاہٹ میں پوری دنیا سے چھپ کر ملنے والے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔
‘ وہ دونوں بھی یہیں ملا کرتے تھے لیکن برا ہو اس بدنیت کوے کا جسے ان کے پیار کی بھنک مل گئی اور اس چغل خور نے ان کا راز فاش کر دیا۔’
ڈاکٹر صاحب یہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ دکھ کے سائے ان کے چہرے پر دیکھے جا سکتے تھے۔
‘ پھر کیا ہوا؟’
میں نے بے چینی سے پوچھا تو ڈاکٹر صاحب بولے کہ اس کے بعد جو کچھ ہوا، افسوس ناک ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کنیز کو قید کر دیا گیا تھا جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ شہزادے کو قید کر دیا گیا تھا جہاں گھٹ گھٹ کر وہ مر گیا اور کنیز کو آبنائے باسفورس میں ڈبو کر اس کا قصہ تمام کر دیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب دکھ کی کیفیت میں خاموش ہو گئے اور مجھے افسوس ہوا کہ ناحق میں نے ضد کی۔ کنیز اور شہزادے کی کہانی نے ڈاکٹر صاحب کو بھی دکھی کیا ہے اور مجھے بھی۔
کنیز اور شہزادی کی کہانی لوک داستانوں کا حصہ ہے، بعض جدید ادیبوں نے اپنی تحریروں میں علامتی انداز میں پیش کیا ہے۔
بہت دیر تک ہم یوں ہی بھٹکتے رہے اور آبنائے باسفورس کے پانیوں کا نظارہ کرتے رہے۔ ان نظاروں اور خنک ہوا نے ہمیں شاد کیا اور کچھ دیر میں ہماری طبیعت بحال ہو گئی۔
اس پہاڑی سے رخ جنوب کی طرف موڑ کر ترائی میں دیکھیں تو چھ گنبدوں اور اونچے میناروں والی مسجد دکھائی دیتی ہے۔ یہ استنبول کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ جس میں 65 ہزار کے قریب افراد بہ یک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔
صدر رجب طیب ایردوان نے مئی 2019 کو اس مسجد کا افتتاح کیا۔ یہ مسجد عثمانی اور سلجوقی طرز تعمیر کا امتزاج پیش کرتی ہے جس کا مطلب جدید ترکیہ کو اپنی تہذیب اور شان دار ماضی کے ساتھ منسلک کرنا ہے۔
کچھ عرصے کے بعد صدر ایردوان نے اس مسجد کے تہہ خانے میں اسلامک سولائزیشن میوزیم کا بھی افتتاح کیا۔ یہ میوزیم اسلامی تہذیبی ورثے کا ایک عظیم مرکز ہے جس میں عثمانی تہذیبی اسلامی آثار کے علاوہ عرب، مغل، صفوی اور اندلسی اسلامی ورثے کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔ یہ جگہ صدر ایردوان کے دل کے بہت قریب ہے۔
وہ یہاں عیدین کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور اہم مواقع پر سیاسی جلسوں سے خطاب بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے 15 جولائی 2018 کو یوم اتحاد و جمہوریت کے تاریخی جلسے سے بھی یہیں خطاب کیا تھا۔
اس جلسے میں ہم دونوں بھی شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن ہجوم میں پھنس جانے کی وجہ سے اس روز ہم نے اسی پہاڑی کے دامن میں پناہ لی تھی۔ یہ پہاڑی صدر رجب طیب ایردوان کی سیاسی شناخت بن چکی ہے اور صدر صاحب اس کی۔