پنجاب اسمبلی کا اجلاس، ٹی ایل پی کے معاملے پر بات نہ کرنے پر پی ٹی آئی ارکان کا احتجاج، واک آؤٹ

پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی نے تحریک لبیک کے معاملے پر بات نہ کرنے پر ہنگامہ کیا اور ارکان واک آؤٹ کرگئے، پیپلز پارٹی نے بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے ریمارکس کے خلاف واک آؤٹ کیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس تین گھنٹے بیالیس منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر ظہیر اقبال چنہڑ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ آغاز تلاوت کلام پاک، نعت رسول مقبولؐ اور قومی ترانے سے ہوا۔

اجلاس میں پاک افغان جنگ میں پاک افواج کے شہدا اور شہید ایس ایچ او ، سردار غضنفر علی لنگا کے بھائی اور میاں مرغوب کی اہلیہ کی روح کے ایصال ثواب کےلیے فاتحہ خوانی کی گئی۔

اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی معین ریاض قریشی نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب کی توجہ دلانا چاہتا ہوں، آج پنجاب جل رہا ہے، آج پنجاب کے اندر لا اینڈ کی صورتحال خراب ہے، ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں، کل مرید کے میں خون کی ہولی کھیلی گئی ہمارے چیئرمین نے سکھایا جہاں ظلم ہو وہاں مظلوم کا ساتھ دیں، ہمارا سیاسی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ہم ظلم کے خلاف کھڑے ہوں گے، خدا کے لیے آپ لوگوں نے جیسے بھی حکومت بنائی آج پنجاب کے عوام آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، کوئی تو ہو جو ہماری آواز بنے،
میں درخواست کرتا ہوں خدارا اس ملک پر رحم کریں۔

معین ریاض قریشی نے کہا کہ خیبرپختونخوا بہت حساس صوبہ یے وہاں جس کی اکثریت ہے اسے حکومت بنانے دی جائے، آج تمام حکومتی بزنس معطل کرکے پنجاب میں امن و امان پر بات کی جائے۔

وزیر پارلیمانی امور مجتبی شجاع الرحمان نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک لبیک سے درخواست کرتے ہیں یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، ہم تحریک لبیک سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں، ایک مذہبی تنظیم کو انتشار پھیلانا زیب نہیں دیتا، پولیس اور سیکیورٹی کے لوگوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، ایک انسپکٹر شہید ہو چکا ہے یہ طریقہ کار ٹھیک نہیں ہے، اس واقعے کو اپوزیشن نو مئی سے نہ ملائے نو مئی کو پاکستاں پر حملہ کیا گیا تھا، ہندوستان جو کرنا چاہتا تھا وہ انہوں نے نو مئی کو یہاں کردیا، مذہبی جماعت نے جس طرح پنجاب میں کارروائی شروع کی اس سے لوگ تنگ ہیں، حکومت پنجاب کی جانب سے تحریک لبیک سے درخواست کریں گے کہ یہ کوئی طریقہ کار نہیں کہ آپ امن و امان خراب کررہے ہیں، افہام و تفہیم سے معاملات حل کریں۔

مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ مذہبی سیاسی جماعت سے بات کرنا چاہتے ہیں تو بات کرنے کے لیے تیار ہیں، جس طرح پولیس اور سیکیورٹی ایجنسی پر حملے کیے جا رہے ہیں اس میں ایس ایچ او شہید ہوا ہے، پنجاب ہمارا ہے آج لوگ اسپتال اسکولوں کالجوں میں جانے سے بیٹھے ہوئے ہیں، پُرتشدد طریقوں سے مذہبی تنظیم کو یہ بات زیب نہیں دیتی۔

مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ نو مئی وہ دن تھا جب پاکستان و ریاست پر حملہ کیا گیا، نو مئی پر بھارتی میڈیا نے کہاکہ وہ ایک سیاسی جماعت نے کردیا جو ہم چاہتے تھے، دفاعی و عسکری اداروں جناح ہاؤس سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا گیا، نو مئی والوں کو قرار واقعی سزا ملے گی، پی ٹی آئی دور میں تحریک لبیک نے پاکستان کو بند کیا تھا تب بھی ان کے بارہ لوگوں کو شہید کیاگیا اس کا لہو کہاں تلاش کریں؟ ہم افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنا چاہتے ہیں۔

حافظ فرحت عباس نے کہا کہ جس طرح آپ نظام چلا رہے ہیں اس طرح چلے گا نہیں، ہم فوج کے ساتھ کھڑے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ہم مطالبہ کرتے ہیں ہر ادارہ اپنی حدود میں کام کرے، یہ نہیں ہو سکتا آپ ہر چیز میں ٹانگ اڑائیں، جب آپ روزگار چھین لیں گے انصاف ناپید کر دیں گے اور جب یہ دھند چھٹے گی تو پتا چلے گا تب تعین ہوگا آج جو حالات ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے، ہر چیز کی طرح اس واقعے کے ذمہ دار بھی یہی لوگ نکلیں گے۔

اپوزیشن نے آج کا ایجنڈا معطل کرکے پنجاب میں تحریک لبیک کے خلاف آپریشن پر بحث کا مطالبہ کیا اور منظور نہ ہونے پر اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے’’لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی نہیں چلے گی، شرم کرو حیا کرو عمران کو رہا کرو ‘‘ کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن ارکان نے  اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کرلیا، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر اچھال دیں،

وزیر پارلیمانی امور مجتبی شجاع الرحمان نے تحریک انصاف پر طنز کیا کہ ان کا لیڈر خاتم النبین نہیں بول سکتا یہ ہمیں اسلام کا درس دیتے ہیں، اس پر اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کرگئی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما ممتاز علی چانگ نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت کا حصہ ہیں لیکن ہمیں حکومت سے تحفظات ہیں، میڈیا کے ذریعے ہمیں پتا لگا چیف منسٹر پنجاب نے کہا پنجاب بھی میرا پیسہ بھی میرا پانی بھی میرا، ہم چیف منسٹر کی بطور خاتون عزت کرتے ہیں لیکن ان کی یہ بات غلط تھی، ہم اسمبلی میں جائز بات کرتے ہیں مگر ہمیں رگڑا لگایا جاتا ہے، ہماری پارلیمانی لیڈر کو طالبان سے خطرہ ہے لیکن ان کی سیکیورٹی واپس  لے لی گئی، ہمیں سیدھا انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ ہم ان کے اتحادی ہیں۔

ممتاز علی چانگ نے کہا کہ ہمارے لیڈروں نے قربانیاں دی ہیں آپ ان کا مقابلہ کرتے ہیں، 2022ء میں ہم نے عدم اعتماد میں آپ کا ساتھ دیا، ہمارے ساتھ انتقامی کارروائی نہ کریں، ہم ڈرنے والوں سے نہیں ہیں ہم اصولوں کی بات کریں گے، ہم چاہتے ہیں بلدیاتی الیکشن ہوں لیکن تمام ممبران کے اس بل سے متعلق تحفظات دور ہونے چاہییں، ہم واک آؤٹ کر رہے ہیں، جب تک ہمارے تحفظات دور نہیں کیے جاتے ہیں ہم ایوان کا حصہ نہیں بنیں گے۔
یہ کہہ کر پیپلز پارٹی بھی پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کرگئی۔

ایوان میں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے حافظ فرحت کے سوال پر زبردست جوابی حملہ کیا، انہوں ںے حافظ فرحت کو استعفی کا چیلنج دے دیا اور کہا کہ حافظ قرآن ہوتے ہوئے اسمبلی فلور پر جھوٹ بول رہے تھے، 282 لوگ کہاں شہید ہوئے؟ چیلنج کرتا ہوں اگر ٹی ایل پی کے 282 لوگ شہید ہوئے تو پھر میں استعفی دے دوں گا ورنہ حافظ فرحت استعفیٰ دیں، انیس سو لوگ زخمی ہوئے تو وہ لوگ کہاں گئے اسپتال خالی پڑے ہیں، کوئی طریقہ کار نہیں اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر جھوٹ بولیں۔

انہوں نے کہا کہ رانا ثنااللہ نہیں نیازی سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ہے، امن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب نے پچھلے سال مقابلے میں ستر فیصد جرائم میں کمی آئی، کچھ اضلاع تو زیرو کرائم ریٹ پر چلے گئے ہیں یہ کے پی کا دعویٰ تو کریں وہاں تو کرپشن کی داستانیں ہیں، کے پی کے لوگوں کو انہوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، یہ جنرل فیض جنرل باجوہ کی باقیات ہیں، کے پی حکومت میں فارم 47 والے بیٹھے ہیں جب کہ ہم سب لوگ الیکشن جیت کر آئے ہیں، تمہارا لیڈر خاتم النبین نہیں بول سکتا وہ ہمیں اسلام کا درس دیتے ہو۔

پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر معین قریشی اور دیگر رہنماؤں کی پریس کانفرنس

دریں اثنا پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر معین قریشی نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج اپوزیشن نے نکتہ اٹھایا ہے صوبہ پنجاب کی جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، رات سے شروع ہونے والی  قتل و غارت گری کے اثرات اب پورے پنجاب میں پھیل چکے ہیں، 282 افراد شہید اور 1600 سے زائد زخمی ہوئے، حکومت سے جواب طلب کیا لیکن ان سے کوئی جواب نہیں دیا جارہا، جب شہباز شریف وزیر اعلی تھے تب ماورائے عدالت قتل ہوتے تھے اور آج ان کی بھتیجی بھی وہی کام کر رہی ہے، ہم نے حکومت سے رات کے واقع کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ابھی رپورٹ موجود نہیں ہے، تحریک لبیک کے خلاف رحیم یار خان سے لے کر اسلام آباد تک کی پولیس کو استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2025ء اسمبلی سے مرحلہ وار منظور ہورہا ہے، بل اپوزیشن اوراتحادی جماعت پیپلز پارٹی کی غیر موجودگی میں منظور کیا جا رہا ہے، یہ اپنے طاقت کے نشے میں ہیں کہ انہیں نہ تو غریب عوام کے چولہے نظر آ رہے ہیں اور نہ ہی معیشت، پیپلز پارٹی کو کہتے ہیں کہ اگر پنجاب کے عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو حکومتی بینچ چھوڑیں اور اپوزیشن کے ساتھ بیٹھیں، پنجاب لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2025ء کو مسترد کرتے ہیں، بل میں 37 ترامیم اپوزیشن نے دی ہوئی ہیں۔

بعدازاں اپوزیشن ایوان میں واپس آگئی اور دوبارہ احتجاج شروع کردیا۔ اپوزیشن کے احتجاج کے دوران پنجاب لوکل بل 2025ء کی منظوری کا سلسلہ جاری رہا اور یہ بل کثرت رائے سے منظور ہوگیا۔ اس بل کو وزیر بلدیات ذیشان رفیق نے پیش کیا

پنجاب اسمبلی میں حکومت نے مسودہ قانون مقامی حکومت پنجاب 2025ء بھی منظور کروالیا، اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ تمام ترامیم کو مسترد کردیا گیا۔ بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی مسلسل ہنگامہ آرائی جاری رہی۔ اپوزیشن بار بار اجلاس کی  کارروائی ٹی ایل پی کے تشدد کے باعث موخر کرنے کی اپیل کرتی رہی۔ اپوزیشن ارکان اپنی سیٹوں پر اٹھ کر شور مچاتے رہے، اپوزیشن مسودہ بل کی کاپیاں ہوا میں اڑاتے رہے۔ اپوزیشن لیڈر معین ریاض قریشی نے کہا کہ ایجنڈا ملتوی کیا جائے کیونکہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔

قائم مقام اسپیکر ظہیر اقبال چنڑ نے اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود مسودہ قانون مقامی حکومت پنجاب 2025ءکی منظوری دے دی

Similar Posts