نوبیل انعام برائے معاشیات 2025 ؛ اسرائیل، فرانس اور کینیڈا کے ماہرین کے نام

رواں سال معاشیات کا نوبیل انعام تین ممتاز ماہرینِ اقتصادیات اسرائیلی نژاد امریکی جویل موکیر، فرانس کے فیلیپ اگھیوں اور کینیڈا کے پیٹر ہاوٹ کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق انھیں یہ اعزاز عالمی معیشت میں اختراع، تنوع اور تخلیقی مضمرات کی نشاندہی کے ذریعے پائیدار ترقی کے نظریات پر گراں قدر تحقیق کے اعتراف میں دیا گیا۔

نوبیل کمیٹی نے بتایا کہ اسرائیلی نژاد امریکی 79 سالہ جویل موکیر کو نصف انعام دیا جائے گا جب کہ بقیہ نصف رقم 69 سالہ فیلیپ اگھیوں اور 79 سالہ پیٹر ہاوٹ میں برابر تقسیم ہوگی۔

نوبیل کمیٹی نے بیاتا کہ نصف رقم اکیلے جویل موکیر کو ان کی اس تحقیق پر دیا گیا کہ کس طرح ٹیکنالوجی اور سائنسی پیشرفت نے صدیوں تک اقتصادی ترقی کو ممکن بنایا۔

جویل موکیر نے اپنی تحقیق میں معاشی تاریخ کا استعمال کرتے ہوئے یہ وضاحت کی تھی کہ یورپ اور دنیا نے صنعتی انقلاب کے بعد کس طرح مسلسل ترقی کا راستہ اپنایا۔

انھوں اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ جس طرح سماجی رویوں، سائنسی سوچ اور اداروں نے ٹیکنالوجی کو فروغ دے کر معیارِ زندگی میں انقلاب برپا کیا۔

نوبیل انعام برائے معاشیات کی بقیہ نصف رقم تو فرانسیسی 69 سالہ فیلیپ اگھیوں اور کینیڈا کے 79 سالہ پیٹر ہاوٹ کو ایک مشترکہ نظریاتی ماڈل پیش کرنے پر دی جائے گی۔

ان دونوں ماہرین نے تخلیقی بربادی کے مضمرات پر مشتمل ایک ریاضیاتی نظریہ پیش کیا جس میں نئی اختراعات کے پرانی صنعتوں اور ٹیکنالوجیز کی جگہ لے کر معیشت کو آگے بڑھانے کے عمل کو واضح کیا گیا تھا۔

تخلیقی بربادی کیا ہے؟

یہ تصور معروف معیشت دان جوزف شومپیٹر نے متعارف کرایا تھا۔ جس کے تحت جب نئی اور بہتر ٹیکنالوجی مارکیٹ میں آتی ہے تو پرانی صنعتیں ختم ہوجاتی ہیں اور یہی عمل معاشی ترقی کا حقیقی محرک بنتا ہے۔

نوبیل انعام پانے والے اگھیوں اور ہاوٹ نے 1992 میں اس نظریے پر ایک ریاضیاتی ماڈل پیش کیا جس نے جدید معاشی پالیسی سازی میں بنیادی کردار ادا کیا۔

نوبیل کمیٹی کے چیئرمین جان ہاسلر نے کہا کہ اگر ہم اختراع اور مقابلے کے عمل کو برقرار نہ رکھیں تو معیشت جمود کا شکار ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ نوبیل انعام کی مجموعی رقم 11 ملین سویڈش کرونا (تقریباً 1.2 ملین امریکی ڈالر) ہے جس میں نصف رقم موکیر کو جب کہ باقی نصف اگھیوں اور ہاوٹ میں تقسیم کی جائے گی۔

نوبیل انعام برائے معاشیات واحد ہے جو الفریڈ کی اصل وصیت میں شامل نہیں تھا بلکہ اس انعام کا آغاز 1968 میں سویڈن کے مرکزی بینک نے کیا۔

اب تک 96 ماہرینِ معاشیات اس اعزاز سے نوازے جا چکے ہیں صرف تین خواتین کو تاریخ میں یہ انعام ملا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس یہ انعام دارون عجم اوغلو، سائمن جانسن اور جیمز رابنسن کو ملا تھا جنہوں نے تحقیق کی کہ کیوں کچھ ممالک امیر اور کچھ غریب رہ جاتے ہیں۔

 

Similar Posts