ایکسپریس نیوز کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کا اجلاس سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں پاکستان کے آئی ایم ایف سمیت مختلف اداروں سے لیے گئے قرضوں پر تفصیلی غور کیا گیا۔
اجلاس میں چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایسے قرضوں کا کیا فائدہ جن سے ملک ہی بیٹھ جائے، یہاں مصیبت یہ ہے کہ قرض اتارنے کے لیے قرض لیا جاتا ہے، صبح ٹی وی چلائیں تو خوشی سے بتایا جاتا ہے کہ 100 ملین ڈالر قرض مل گیا، خوشی اس انداز میں ہوتی ہے جیسے بیٹا پیدا ہوا ہو۔
کمیٹی چیئرمین نے بتایا کہ وزارت اقتصادی امور سے 1958ء سے قرضوں کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔
وزارت خزانہ حکام نے بتایا کہ 1984ء سے 2025ء تک مختلف پروگرامز کے تحت قرضوں کی تفصیلات دستیاب ہیں جبکہ اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ 2008ء سے 2025ء تک کا تمام ڈیٹا آٹو میشن کے بعد مکمل دستیاب ہے، حکام کے مطابق اس سے پہلے کا ریکارڈ مینول ہے جسے تلاش کرنا مشکل ہوگا۔
کمیٹی چیئرمین نے ہدایت کی کہ 2008ء سے اب تک کا تمام ڈیٹا آئندہ اجلاس میں فراہم کیا جائے، کیونکہ 2008ء کے بعد نیا پاکستان، پرانا پاکستان اور کئی پاکستان بنے ہیں۔