چین نے کہا ہے کہ امریکہ اگر اسی طرح سے ’ٹیرف نمبر گیم‘ کھیلتا رہا تو وہ واشنگٹن کے ان اقدامات پر توجہ نہیں دے گا۔
چین کی وزارت خارجہ نے جمعرات کو کہا ہے کہ اگر امریکہ ’ٹیرف کے اعداد و شمار کا کھیل‘ کھیلتا رہا تو چین اس پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب وائٹ ہاؤس نے وضاحت دی کہ چین کو اس کی جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں 245 فیصد تک کے ٹیرف کا سامنا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق منگل کو جاری کردہ ایک فیکٹ شیٹ میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ چین کے کل محصولات میں تازہ ترین 125 فیصد کا جوابی ٹیرف، معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے 20 فیصد کا ٹیرف اور غیر منصفانہ تجارتی طریقوں سے نمٹنے کے لیے مخصوص اشیا پر 7.5 فیصد سے 100 فیصد تک کے ٹیرف شامل ہیں۔
چین کا امریکا کو سخت جواب؛ امریکی مصنوعات پر 84 فیصد نیا ٹیرف عائد
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ہفتے قبل تمام ممالک پر اضافی ٹیرف کا اعلان کیا تھا، لیکن اچانک درجنوں ممالک کے لیے زیادہ ’جوابی ٹیرف‘ واپس لے لیے، جبکہ چین پر سخت محصولات برقرار رکھے۔
بیجنگ نے اس کے ردعمل میں امریکی اشیا پر اپنی محصولات بڑھا دیں اور مذاکرات کی کوئی کوشش نہیں کی، جس کے بارے میں بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ صرف باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر ہی ہو سکتے ہیں۔
تجارتی جنگ میں شدت، چین نے امریکہ سے طیاروں اور پرزہ جات کی خریداری روک دی
دریں اثنا، کئی دیگر ممالک نے واشنگٹن کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں پر غور شروع کر دیا ہے۔
گذشتہ ہفتے، چین نے عالمی تجارتی تنظیم ( ڈبلیو ٹی او) میں ایک نئی شکایت بھی درج کروائی ہے جس میں امریکی ٹیرف پر ’گہری تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے واشنگٹن پر عالمی تجارتی ادارے کے قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔
اس ہفتے، چین نے غیر متوقع طور پر ایک نئے تجارتی مذاکرات کار کو مقرر کیا ہے جو بڑھتے ہوئے ٹیرف کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے کسی بھی بات چیت میں کلیدی کردار ادا کرے گا، اور اس نے تجارتی زار وانگ شووین کو ہٹا کر اپنے ڈبلیو ٹی او کے ایلچی لی چینگ گانگ کو مقرر کیا ہے۔
ٹیرف معاملے پر چین کا جوابی وار، مزید 18 امریکی کمپنیوں پر پابندی لگا دی
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے لیکن بیجنگ کو پہل کرنا چاہیے۔
دوسری جانب امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ٹیرف سے متعلق مذاکرات کو اپنے تجارتی شراکت داروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ انہیں چین کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو محدود کرنے پر مجبور کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق ان مذاکرات کا مقصد مختلف ممالک سے یقینی دہانی لینا ہے کہ وہ ٹیرف میں کمی کے بدلے میں چین کو معاشی میدان میں تنہا کرنے پر امریکہ کا ساتھ دیں گے۔
امریکی حکام 70 سے زیادہ ممالک کے ساتھ ہونے والے ٹیرف مذاکرات کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان ممالک سے کہا جائے گا کہ وہ چینی مصنوعات کو اپنی سرحدوں سے گزرنے کی اجازت نہ دیں اور چین کے سستے صنعتی سامان کو اپنی مارکیٹ کا حصہ نہ بننے دیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کئی ایسے ممالک پر اضافی ٹیرف لگانے کا اعلان کیا تھا جن میں اس کے حریف بھی شامل تھے اور شراکت دار بھی جبکہ پسماندہ ممالک کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے ٹیرف کے جواب میں چین نے امریکی اشیا پر 125 فیصد برآمدی ڈیوٹی عائد کر دی ہے جس کے بعد دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ شدت اختیار کر گئی ہے۔