غزہ امن معاہدہ یا سیاسی مبالغہ؟ اسرائیلی پارلیمنٹ میں ٹرمپ کی تقریر میں کئی متنازع دعوے

غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر دستخط سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں خطاب کیا اور اس معاہدے کو اپنی کامیابی قرار دیا تھا۔ ٹرمپ نے غزہ امن معاہدے کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ یہ ’ایک نئے مشرقِ وسطیٰ‘ کا آغاز ہے مگر اپنے خطاب میں فلسطینیوں کے حقوق پر کوئی بات نہیں کی۔

الجزیرہ نے یہ رپورٹ الجزیرہ میں 14 اکتوبر 2025 کو پولیٹی فیکٹ کی رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کے کئی دعوے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ پولیٹی فیکٹ ایک غیر جانب دار امریکی تنظیم ہے جو سیاست دانوں کے بیانات کی سچائی کی جانچ کرتی ہے۔

پیر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ سے خطاب کرتے ہوئے اس معاہدے کو ”مشرقِ وسطیٰ کے نئے تاریخی دور کا آغاز“ قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ”یہ صرف جنگ کا اختتام نہیں بلکہ دہشت اور موت کے ایک عہد کا خاتمہ اور ایمان، امید اور خدا کے دور کا آغاز ہے۔“

تاہم، امریکی فیکٹ چیکنگ ادارے پولیٹی فیکٹ نے دعوٰٰی کیا کہ ٹرمپ کی تقریر میں مشرقِ وسطیٰ کے تنازع اور عالمی امن معاہدوں سے متعلق کئی دعوے جزوی طور پر درست یا مکمل طور پر گمراہ کن تھے۔

رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کی تقریر بنیادی طور پر ان کی انتظامیہ کے اس امن معاہدے پر مرکوز تھی، جس میں غزہ میں جنگ بندی، 20 اسرائیلی یرغمالیوں اور 250 فلسطینی سیاسی قیدیوں کے علاوہ 1700 غزہ کے زیرحراست افراد کی رہائی شامل ہے۔ پولیٹی فیکٹ کے مطابق ان میں سے زیادہ تر فلسطینیوں کو اسرائیل نے ”زبردستی لاپتہ“ کیا تھا۔

ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے آئندہ مراحل اب بھی غیر واضح اور پیچیدہ ہیں۔ اپنی تقریر کے بعد ٹرمپ مصر روانہ ہوئے، جہاں انہوں نے پیر کو عالمی رہنماؤں کے ساتھ معاہدے کے پہلے مرحلے پر دستخط کیے۔ اس تقریب میں حماس اور اسرائیل کی طرف سے کوئی نمائندگی موجود نہیں تھی۔

رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے “آٹھ مہینوں میں آٹھ جنگیں ختم کرائیں، تاہم رپورٹ کے مطابق یہ دعویٰ درست نہیں، کیونکہ یمن، شام، سوڈان اور یوکرین سمیت متعدد تنازعات اس عرصے میں بدستور جاری رہے۔

غزہ امن منصوبے کے تحت، عرب اور بین الاقوامی شراکت دار غزہ میں ایک ”استحکام فورس“ تعینات کریں گے، جبکہ روزمرہ حکومتی امور حماس سے منتقل ہو کر ایک فلسطینی انتظامی کمیٹی کے سپرد ہوں گے۔

اس کمیٹی میں فلسطینی اور بین الاقوامی ماہرین شامل ہوں گے، جن کی نگرانی ایک ”بورڈ آف پیس“ کرے گا جس کی صدارت ٹرمپ خود کریں گے، جبکہ اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے۔

صدر ٹرمپ، جو کنیسٹ سے خطاب کرنے والے چوتھے امریکی صدر ہیں، انھوں نے اپنے نامزد مذاکرات کار اسٹیو وٹکوف اور وزیر خارجہ مارکو روبیو کی تعریف کی، مگر ساتھ ہی سابق صدور باراک اوباما اور جو بائیڈن پر تنقید کی۔

انہوں نے اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ سے مطالبہ کیا کہ وہ وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو بدعنوانی کے مقدمے سے معافی دے دیں۔ ٹرمپ کی یہ تقریر جو 13 اکتوبر کو کنیسٹ میں کی گئی، جسے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے عمل پر ان کی حکومت کے کردار کو اجاگر کرنے کی تازہ کوشش سمجھی جا رہی ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹرمپ کے بیانات نے خطے کے حقیقی مسائل، خصوصاً غزہ کی تباہی، انسانی بحران اور فلسطینی ریاست کے مستقبل کو نظرانداز کیا۔ ان کے مطابق ٹرمپ کا بیان زیادہ تر اسرائیل کے مفادات کے گرد گھومتا رہا۔

ٹرمپ نے اپنی تقریر کے دوران کئی بار کہا کہ غزہ جنگ کے خاتمے کا سہرا ان کے سر ہے، حالانکہ حقوقِ انسانی کی تنظیموں کے مطابق اس جنگ میں تقریباً 68 ہزار فلسطینی جاں بحق ہوئے اور خطے میں تباہی کا حجم بہت وسیع ہے۔

Similar Posts