غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ وہ علاقے کی تعمیرِ نو اور معاشی بحالی میں تعاون کے لیے تیار ہے۔
الجزیرہ کے مطابق آئی ایم ایف کی ڈپٹی چیف اکنامسٹ پیٹیا کویوا-بروکس نے بتایا کہ امن معاہدہ غزہ اور خطے میں دیرپا معاشی بحالی کا موقع فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ “آئی ایم ایف تعمیرِ نو کے عمل میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے اور اس معاہدے سے مصر اور اردن جیسے ممالک کو بھی معاشی سہارا ملے گا جو جنگ سے متاثر ہوئے ہیں۔”
اقوامِ متحدہ کے مطابق دو سالہ تباہ کن جنگ کے بعد غزہ کی بحالی کے لیے 50 ارب ڈالر سے زائد کی رقم درکار ہوگی۔
ان سے قبل بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کی ترجمان سارہ ڈیوس نے الجزیرہ کو بتایا کہ غزہ میں تباہی اس قدر وسیع ہے کہ بحالی کا عمل “ہفتوں نہیں، بلکہ مہینوں یا برسوں پر محیط ہوگا۔”
انہوں نے کہا کہ شہری انفراسٹرکچر، اسپتال، پانی کی فراہمی اور نکاسیٔ آب کے نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے، اور امدادی سامان کی فراہمی اب بھی مشکلات کا شکار ہے۔
ان کے بقول، “اگرچہ جنگ بندی خوش آئند ہے، مگر غزہ میں حالات راتوں رات تبدیل نہیں ہو سکتے۔ بحالی ایک طویل اور مسلسل عمل ہوگا۔”
ادھر برطانوی وزیرِ خارجہ یوویٹ کوپر نے واضح کیا ہے کہ غزہ اور فلسطین کی حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا، “فلسطین کو فلسطینیوں کے زیرِانتظام ہونا چاہیے اور غزہ کو بھی۔”
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے “بورڈ آف پیس” کے قیام کے لیے ممکنہ امیدوار کے طور پر تجویز کیا گیا تھا۔
کوپر نے کہا کہ “انتقالِ اقتدار اور انتظامی عمل کی تفصیلات آئندہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں طے ہوں گی۔”